شیخ سعدی ایک شہرسے دوسرے شہر چلے جارہے تھے غربت کے عالم میں کوئی زاد ِ راہ بھی نہ تھا شدت کی گرمی اوپرسے پائوںمیں جوتا تک نہ تھی جانابھی ضروری دور دورتک کوئی سایہ تھا نہ جائے پناہ۔ ریت کے ٹیلے عبور کرتے کرتے پائوں میں چھالے پڑگئے انہوںنے اللہ تعالیٰ سے گلہ شکوہ شروع کردیا وہ جتنی دیرمسافت میں تھے انہوںنے اللہ کے حضورشکایات کے دفتر لگادئیے ایک آبادی کے آثارنظر آئے توانہوںنے مسجدکا رخ گیا نمازپڑھتے ہوئے ان کے پائوںکے چھالو ںسے پانی رسنے لگا تودردسے براحال ہوگیا دعا کے دوران بھی شیخ سعدی کے گلے شکوے ختم نہ ہوئے انہوںنے مسجدسے پانی پیا پھر منزل کی طرف بڑھنے کا قصد کیا ہی تھا کہ مسجد کے باہر ہی زمین پر سجدہ ریزہوگئے لوگوںنے لپک کر اٹھایا ایک شخص نے ترنت کہا عجیب آدمی ہو ابھی نمازتو تم نے ہمارے ساتھ پڑھی تھی پھر یہاں ننگی زمین کی تپتی ریت پر سجدہ کرنے کی کیا ضرورت تھی؟ شیخ سعدی کی آنکھوںمیں آنسو آگئے انہوں نے لوگوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا میں صبح سے اللہ سے ایک سوال کررہا تھا اب مجھے اس کا جواب ملاہے تو شکرانے کے طورپر سجدہ ریز ہو گیا ہوں۔
شیخ سعدی نے کہا میرے پائوںمیں جوتانہیں تھا گرمی کی شدت سے چھالے پڑ گئے چلنا محال تھا میں متواتر گلے شکوے کرتا چلا جارہاتھا جب میں نمازپڑھ کر مسجدسے نکلاتو لبوںپر پھرآہ فغاں تھی شکوے تھے شکائیتں تھیں میںتو جوتے کو رورہاتھا میںنے دیکھا ایک شخص زمین پر گھسیٹ گھسیٹ کر جا رہاتھا اس کے پائوں ہی نہیں تھے میں نے فوراً سجدے میں گرکر اللہ کا شکراداکیا کہ مالک تیرا کرم ہے جوتانہیں ہے تو کیا ہوا پائوںتو ہے ناں۔۔یہ حکایت پڑھی تویادآیا ہماری کلاس میں ایک اشرف نامی طالب ِ علم غالباً کسی دیہات سے پڑھنے کیلئے آیا کرتا تھا وہ تمام کلاس فیلوزکا آسان ہدف تھا وہ پڑھائی میں بہت تیزتھا لیکن یہ خوبی اس کے کسی کام نہ آتی کیونکہ اس کی شخصیت میں ایک خامی نے اسے احساس ِ کمتری کا شکاربناکررکھ دیا تھا وہ لنگڑا کر چلتا تھا جب وہ کلاس میں داخل ہوتا لڑکے ڈیسک بجا کر کورس کی آواز میں گاتے لنگڑ دین۔۔ بجائے بین لنگڑ دین۔۔ بجائے بین
ٹیچر اور کچھ حساس قسم کے لڑکے بہت سمجھاتے لیکن اکثریت نصیحت و فصیحت ایک کان سے سنتی دوسرے سے نکال دیتی طارق اور میں اس کی دلجوئی کرتے لیکن اس کے چہرے کی اداسی ختم نہ ہوتی ایک دن ٹیچرنے چھٹی کرلی جو پیریڈ خالی تھااس میں منچلوںنے اسے تنگ کرنے کی انتہاکردی جب وہ تھک ہارگئے تو اشرف اٹھ کرکھڑاہوا اس کی آنکھوں میں تیرتی نمی صاف دیکھی جاسکتی تھی اس نے بڑی حسرت سے کہا کوئی کسی کو اتنا بھی تنگ کرتاہے کہ اس کی جان پر بن جائے یار میں بھی تو انسان ہوں چلو آج جتنا تنگ کرناہے کرلو کل سے یہ تماشا بھی ختم ہوجائے گا یہ کہتے ہوئے اس کی آنکھوں میں نہ جانے کتنے آنسو تڑپے اور گالوںپرپھیلتے چلے گئے میں نے اٹھ کر اسے گلے لگایا دلاسہ دیا پوری کلاس کی طرف سے معافی مانگتے ہوئے اس کے آگے ہاتھ جوڑ دئیے لیکن اس نے کتابیں اٹھائیں چلاگیا پھر لوٹ کر کبھی نہ آیا۔
میں اس کوبھی نہیں بھول سکتا یقین جانئے آج بھی نہیں بھولا میں ایک دوست کے ساتھ بیٹھاایک ٹی سٹال پر چائے پیتے ہوئے خوش گپیو ںمیں مشغول تھا کہ ایک آوازنے سلسلۂ تکلم منطقع کرڈالا وہ دونوں ٹانگوںسے معذور ایک بھکاری تھا لیکن خوش شکل تھا بڑا ترس آیا میں نے بیٹھے بیٹھے جیب سے 10کا نوٹ نکالا اور بے نیازی سے اس کی جانب اچھال دیا نوٹ ہوا سے کچھ دور جاگرا اس نے روایتی بھکاریوںکی طرح پیسے نہیں اٹھائے بلکہ زمین پر گھستاہوا میرے قریب آیا جو اس نے الفاظ کہے اس نے مجھے جنجھوڑکررکھ دیا اس نے کہا تھا
”اللہ کے نام پر بھیک بھی عزت سے نہیں دے سکتے کیسے مسلمان ہو؟
یہ سن کرمیں تڑپ تڑپ اٹھا فوری اپنی نشست سے اٹھا اس کے برابر جا بیٹھا اس سے معذرت اور اللہ سے توبہ کی التجا کی اسے اپنے ہمراہ چائے پینے کی درخواست کی جو کچھ تردد کے بعد اس نے منظورکرلی اس دوران نہ جانے کیوں مجھے اپنا کلاس فیلو اشرف یادآگیا جس نے ڈبڈبائی آنکھوںسے شریر ہم مکتب کو کہاتھا یار میں بھی تو انسان ہوں۔
یہ بات طے ہے کہ معذور بڑے حساس تو واقع ہوتے ہیں اس لئے ان سے ہمدردی کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کا شکراداکرناچاہیے کہ ہم کسی بھی قسم کی معذوری کا شکارنہیں ہیں یقینایہ مقام ِ شکرہے جس کا تقاضاہے کہ ہم خصوصی افراد کی ضروریات کا خیال رکھیں پوری دنیامیں خصوصی افراد حکومتوںکی توجہ کے مستحق سمجھے جاتے ہیں کیونکہ انہیں معاشرہ کے قابل بنانے اور زندگی کی دوڑ میں نارمل انسانوںکے شانہ بشانہ چلنے کے لئے بہت سے اقدامات کی ضرورت ہوتی ہے لیکن تیسری دنیا کے بیشترممالک میں ان کے لئے اعلانات تو بہت کئے جاتے ہیں لیکن عملی طورپر کوئی قابل ِذکر کچھ ہیں کیا جاتا جس کے باعث معذور افراد احساس ِ کمتری کا شکارہوتے چلے جاتے ہیں اگر بغور دیکھا جائے تو معذوری کی بہت شکلیں ہیں وہ کمزور،بے بس اور لاچارہوتے ہیڈ اس لئے دہشت گردوں اور منشیات فروشوں کا آسان ہدف ہوتے ہیں اور وہ انہیں بآسانی سے اپنے مذموم مقاصد کیلئے استعمال کرسکتے ہیں۔
اس لئے انہیں اپنے آپ اور خاندان سے جدا نہ کریں ایک محتاط اندازے کے مطابق برصغیرمیں ڈیڑھ کروڑ سے زائد افراد مختلف نوعیت کی معذوری کا شکارہیں کیا یہ حکومتوں کے لئے لمحہ ٔ فکریہ نہیں کہ معذورافرادبھی اپنے مطالبات کے حق میں سڑکوںپر احتجاج کرتے پھریں اور بے حس حکمران ان کی ایک بھی نہ سنیں صرف پاکستان میں 32 لاکھ سے زائد افراد کسی نہ کسی معذوری کا شکار ہیں، جبکہ انڈیا میں ان کی تعداد ایک کروڑ سے تجاوزکرچکی ہے بنگلہ دیش میں یہی 30لاکھ ہے جبکہ پاکستان کے صوبہ سندھ میں 9 لاکھ سے زائد معذور افراد ہیں،پور ی دنیا میں معذورافرادکی نگہداشت،تعلیم و تربیت اور کفالت کے ہزاروں ادارے موجود ہیں جو انتہائی ناکافی ہیں، ہر ادارے میں 200 سے 250 بچوں کی گنجائش ہوتی ہے، باقی معذوری کا شکار بچے بے بسی کی زندگی گزارتے ہیں اور زندگی کی دوڑ میں شامل نہیں ہوپاتے۔اس بات سے صرف ِ نظرنہیں کی جاسکتی ہے کچھ اداروںمیںمعذوربچوںکو ظلم وتشدداور جنسی استحصال کا بھی سامنا کرناپڑتاہے جوظلم کی بدترین مثال ہے اس معاملہ میں خوف ِ خداکو ضرورملحوظ ِ خاطررکھنا چاہیے کیونکہ یہ معذور ضرور ہوتے ہیں لیکن مجبور نہیں ہوتے، ہمیں انہیں کارآمد شہری بنانے کے لئے سنجیدہ کوششیں کرنی چاہئیں اور ایسے ادارے زیادہ تعداد میں قائم کرنے ہوں گے جہاں ان کی دیکھ بھال کے ساتھ ساتھ ان کی تعلیم و تربیت کا بھی بندوبست ہو کچھ حکومتوں نے سرکاری نوکریوں میں معذور افراد کے لئے 2 فیصد کوٹہ مختص کیا ہوا ہے جن پر ان کا تقرر کیا جانا چاہئے اب ملٹی نیشنل کمپنیوں میں ملازمت کے لئے اسپیشل افراد کے لئے کوٹہ مختص کیا گیا ہے اس پر سختی سے عملدرآمد کی ضرورت ہے آخروہ بھی تو انسان ہیں۔