بھارت، کیا نیا سال نئے مسائل ساتھ لائے گا؟

India Coronavirus

India Coronavirus

بھارت (اصل میڈیا ڈیسک) رواں برس کے آغاز پر بھارت کو کورونا وائرس کی دوسری اور تباہ کن لہر کا سامنا کرنا پڑا تھا اور اب ایک مرتبہ پھر بھارت میں اومیکرون وائرس کے کیسز کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔

گو کہ ماہرین کو امید ہے کہ نیا کورونا ویریئنٹ قدرے کم مہلک ہو گا تاہم ماہرین اسے سنجیدہ لینے کا کہہ رہے ہیں۔ بھارت میں رواں برس کے آغاز پر کورونا وائرس کی دوسری لہر نے تباہی پھیلا دی تھی۔ اس لہر کی وجہ سے بھارت کا نظام صحت مفلوج ہو کر رہ گیا تھا۔ اپریل اور مئی میں اس لہر کے بامِ اوج پر روزانہ سامنے آنے والے کیسز کی تعداد چار لاکھ سے بھی تجاوز کر گئی تھی، جو ملک کے صحت کے ڈھانچے کے لیے ناقابل برداشت بوجھ تھا۔ اس دوران اہم ادویات، ہسپتالوں کے بستروں اور آکسیجن سیلنڈروں کی قلت تک کے مناظر دیکھے گئے۔ کئی افراد اس دوران ہسپتالوں کے باہر میڈیکل آکسیجن کی عدم دستیابی کی بنیاد پر دم توڑتے بھی نظر آئے۔

لاشوں کو ٹھکانے لگانے والے امن لال نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو میں کہا، ”یہ ایک جہنم جیسا ماحول تھا۔ پوری قوم نے ہسپتالوں میں بستروں کی قلت کے خوف ناک مناظر ایک ماہ سے زائد عرصے تک دیکھے۔ آرتیوں کو دن اور رات آگ لگانے کا کام جاری تھا، ڈاکٹر آکیسجن کی بھیک مانگتے نظر آتے تھے،مریض ہسپتالوں کے دروازوں پر دم گھٹنے کے باعث بے بسی کی موت مر رہے تھے اور گلتی سٹرتی لاشیں دریائے گنگا میں تیرتی نظر آتی تھیں۔‘‘

حالیہ کچھ ہفتوں میں بھارت میں کورونا وائرس کی تیسری لہر کے خدشات بڑھ رہے ہیں اور وجہ عالمی سطح پر کورونا وائرس کی نئی قسم اومیکرون کا پھیلاؤ ہے۔

بھارت کے محکمہ صحت کے مطابق ملک بھر میں اب تک 12 ریاستوں میں اومیکرون کے 200 کیسز سامنے آئے ہیں، جن میں اکثریت مغربی ریاست مہاراشٹر اور دارالحکومت دہلی میں ریکارڈ کی گئی ہے۔ تاہم ملک میں کورونا کیسز کی یومیہ تعداد ایک ہفتے میں دوگنا ہو چکی ہے۔ اب تک تاہم ہلاکتیں رپورٹ نہیں ہوئی ہیں۔

طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ آئندہ چند ہفتوں یا مہینوں میں بھارت میں انفکیشن کی تعداد بڑھ سکتی ہے۔ تاہم ان کا یہ بھی خیال ہے کہ نیا ویریئنٹ ممکنہ طور پر ڈیلٹا ویریئنٹ کے مقابلے میں کم مہک ہو سکتا ہے۔