جرمنی (اصل میڈیا ڈیسک) جرمن صدر نے کہا ہے کہ وبا کو شکست دینے کی ذمہ داری ریاست کے علاوہ ہر ایک جرمن شہری کے سَر ہے۔ یہ بات جرمن صدر نے اپنی کرسمس کے موقع پر کی جانے والی تقریر میں کہی ہے۔
جرمن صدر فرانک والٹر شٹائن مائر کی کرسمس کے موقع پر نشر کی جانے والی تقریر ہفتہ چوبیس اکتوبر کو نشر کی جائے گی لیکن اُس تقریرکا متن قبل از وقت جاری کر دیا گیا ہے۔ اس تقریر میں انہوں نے اپنے ملک کے ہر شہری سے کہا ہے کہ وہ پھیلی ہوئی وبا کے خاتمے میں اپنا کردار ادا کرے۔ انہوں نے مزید کہا کہ کورونا وبا کے تناظر میں تمام شہری کرسمس کے موقع پر آزادی، اعتماد اور ذمہ داری کے مطالب کو ایک مرتبہ پھر سمجھنے کی کوشش کریں۔
جرمن صدر نے اپنی تقریر میں اُس جرمن اکثریت کی تعریف کی، جس نے کووڈ انیس کی وبا کے دوران ویکسین لگوانے کی حکومتی ہدایت پر عمل کیا۔
جرمن صدر نے اپنے کرسمس کے خطاب میں واضح کیا کہ بہت کم ایسا ہوا ہے کہ ریاستی ذمہ داری سے عوام کی صحت اور زندگیوں کو محفوظ بنایا گیا ہو بلکہ اس عمل میں عوام کو بھی شامل ہونا پڑتا ہے۔ انہوں نے اپنی تقریر میں سائنسدانوں، ڈاکٹروں، نرسوں اور سرکاری ملازمین کے ساتھ ساتھ قانون نافذ کرنے والے اداروں کو بھی خراجِ تحسین پیش کیا کہ وہ انسانی صحت اور زندگیوں کو محفوظ بنانے میں پیش پیش رہے۔
کرسمس کے خطاب میں جرمن صدر نے کہا کہ ویکسین لگوانے اور نہ لگوانے کے عمل کو اختلافِ رائے میں تو شمار کیا جا سکتا ہے لیکن اس کی وجہ سے معاشرتی تقسیم کسی بھی صورت میں نہیں ہونی چاہیے۔
اس خصوصی خطاب میں فرانک والٹر اشٹائن مائر نے کہا کہ ریاست کا یہ فرض ہے اور وہ اقدام کرے لیکن اس معاملے میں صرف ریاست نہیں بلکہ افراد بھی شریک ہوتے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ ریاست ہر شہری کے چہرے پر ماسک نہیں پہنا سکتی اور نہ ہی لوگوں کو پکڑ کر ویکسین لگوا سکتی ہے، اس لیے ہر شہری بھی اس عمل میں حصہ دار بنے۔
اختلاف رائے درست لیکن تقسیم نامناسب کرسمس کے خطاب میں جرمن صدر نے کہا کہ ویکسین لگوانے اور نہ لگوانے کے عمل کو اختلافِ رائے میں تو شمار کیا جا سکتا ہے لیکن اس کی وجہ سے معاشرتی تقسیم کسی بھی صورت میں نہیں ہونی چاہیے۔
انہوں نے مزید کہا کہ دو سالوں کے دوران مایوسی بڑھی ہے، چیڑچڑا پن بھی زیادہ پھیل گیا ہے، اس کے ساتھ ساتھ افراد میں تنہا رہنے کا رویہ بھی نمودار ہوا ہے اور ان وجوہات کی وجہ سے کھلی جارحیت سامنے آنا شروع ہو گئی ہے۔
جرمن صدر نے مزید کہا کہ یہ درست ہے کہ جمہوریت میں ہر ایک کی رائے یکساں نہیں ہوتی لیکن وہ لوگوں سے اپیل کرتے ہیں کہ سب لوگ ایک ملک کا حصہ ہیں اور وبا ابھی ختم نہیں ہوئی اور ضرورت اس امر کی ہے کہ سب لوگ ایک دوسرے پر نگاہ رکھیں تا کہ وبا کے خاتمے کے بعد سب لوگ ایک ساتھ پھر سے اکھٹا رہنا شروع کر دیں۔
پرانے قیمتی الفاظ پر پھر سے غور کریں! فرانک والٹر اشٹائن مائر نے اس امید کا اظہار کیا کہ قیمتی پرانے الفاظ کو نئے معنی درکار ہیں اور ان میں آزادی، اعتماد اور ذمہ داری اہم ہیں۔ انہوں نے وضاحت کی کہ اعتماد کے معنی اندھا اعتماد نہیں قرار دیا جا سکتا بلکہ شکوک و شبہات کے دور میں کوئی مناسب بات کو وزن دینا بھی اس میں شمار کیا جا سکتا ہے۔ اسی طرح انہوں نے آزادی کے حوالے سے کہا کہ شور شرابے والے مظاہروں کو آزادی قرار نہیں دیا جا سکتا۔ انہوں نے مزید واضح کیا کہ کئی معاملات پر سمجھوتے درکار ہوتے ہیں جیسا کہ کلائمیٹ چینج۔
جرمن صدر نے کہا کہ ہر گزرتے دن پر سبھی مل کر ایک ایسے مثبت عوامل کا حصہ بنیں تا کہ معاشرتی اقدار کی مضبوطی سے سب ایک دوسرے کو سنبھال سکیں
اپنی تقریر میں صدر اشٹائن مائر نے کئی اہم بین الاقوامی و قومی معاملات پر بھی لوگوں کی توجہ مرکوز کرانے کی کوشش کی۔ اس تناظر میں انہوں نے مغربی جرمنی میں جولائی میں آنے والے سیلاب اور افغانستان میں سے افراتفری میں انخلا کے علاوہ مشرقی یورپ میں پیدا تناؤ کی صورت حال کی مثالیں دیں۔ انہوں نے سیلاب سے متاثرین کی مدد اور چندہ دینے میں عام لوگوں کی شمولیت کو بھی تحسینی عمل قرار دیا۔
انہوں کہا کہ گزرتے سال پر نظر دوڑائیں تو تفکرات میں اضافے نے افراد کو خوفزدہ کر دیا ہے۔ ایسے میں انہوں نے اجتماعی طور پر ذمہ داریاں پورا کرنے کو اہم قرار دیا۔ جرمن صدر نے کہا کہ ہر گزرتے دن پر سبھی مل کر ایک ایسے مثبت عوامل کا حصہ بنیں تا کہ معاشرتی اقدار کی مضبوطی سے سب ایک دوسرے کو سنبھال سکیں۔