جرمنی (اصل میڈیا ڈیسک) اومیکرون ویریئنٹ نے کرسمس کی چھٹیوں کی خوشیاں افسردگی میں تبدیل کر دی ہیں۔ مختلف ہوائی کمپنیوں کی ساڑھے چار ہزار سے زائد پروازوں کو منسوخ کر دیا گیا ہے۔
دنیا بھر میں کرسمس کے دن یعنی پچیس دسمبر کو دو ہزار کے قریب پروازیں منسوخ کی گئیں اور اتوار کو مزید پانچ سو پروازوں کی منسوخی کا اعلان کر دیا گیا ہے۔
فلائٹ اویئر ڈاٹ کام ٹریکنگ پلیٹ فارم کے مطابق کرسمس سے ایک دن قبل جمعہ چوبیس دسمبر کو مختلف ہوائی کمپنیوں نے دو ہزار چار سو پروازوں کو منسوخ کیا تھا۔ یہ امر اہم ہے کہ کرسمس سےقبل کا دن ہوائی کمپنیوں کے لیے ایک انتہائی مصروف دن تصور ہوتا ہے لیکن رواں برس کورونا کے نئے ویریئنٹ اومیکرون کے پھیلاؤ نے ہوائی کمپنیوں کے عملے کے کئی افراد کو بھی بیمار کر دیا اور اس باعث پروازیں منسوخ کر دی گئیں۔
سب سے زیادہ امریکی پروازیں منسوخ امریکا کے اندر اور بیرون امریکا پروازیں سب سے زیادہ متاثر ہوئی ہیں۔ اس ویک اینڈ پر مجموعی پروازوں کا ایک چوتھائی منسوخ کر دیا گیا۔ امریکی ہوائی کمپنیوں یونائیٹڈ ایئرلائنز اور ڈیلٹا ایئر لائنز نے تین سو سے زائد پروازیں شیڈول سے اس بنیاد پر ہٹائیں کہ فضائی ملازمین کی قلت کے علاوہ کووڈ انیس کی نئی انفیکشنز میں اضافہ ہو گیا ہے۔ یونائیٹد ایئرلائنز نے تو واضح طور پر اومیکرون ویرئینٹ کے پھیلاؤ کو اپنے بیان میں شامل کیا ہے۔ ان امریکی ہوائی کمپنیوں نے پروازوں کی منسوخی کے بعد مسافروں کو مطلع بھی کیا ہے۔
فضائی عملے کی علالت برطانیہ میں کئی کارخانوں میں اسٹاف کی کمی کی وجہ کووڈ انیس کا دوبارہ پھیلاؤ خیال کیا گیا وہاں ہوائی کمپنیوں کے ملازمین کو بھی علالت کا سامنا ہے اور بیمار ورکرز قرنطینہ میں ہیں۔
جرمن ہوائی کمپنی لفتھانزا نے جمعہ چوبیس دسمبر کو بتایا تھا کہ اس نے کئی پروازیں اس بنیاد پر منسوخ کر دی ہیں کہ کہ پائلٹ علیل ہو گئے ہیں اور وہ قرنطینہ میں ہیں۔ جرمنی میں کرسمس کے موقع پر کورونا انفیکشنز میں غیر معمولی اضافہ دیکھا گیا ہے۔
ادھر آسٹریلیا کی ایک ہوائی کمپنی جیٹ اسٹار ایئر لائنر نے اومیکرون کے خدشے میں اپنے ملازمین کے کورونا ٹیسٹ شروع کر دیے ہیں اور جن ملازمین میں انفیکشنز پایا گیا، انہیں قرنطینہ میں بھیج دیا گیا ہے۔ اس وجہ سے کئی پروازیں آخری وقت میں منسوخ کر دی گئیں اور مسافروں کو شدید پریشانی اور کوفت کا سامنا کرنا پڑا۔
رواں برس بھی کووڈ انیس وبا کا پریشان کن سایا کرسمس کی خوشیوں پر چھایا رہا۔ بیت لحم سے فرینکفرٹ اور لندن سے بوسٹن تک گرجا گھروں میں عبادت گزاروں کے داخلے کو محدود رکھا گیا۔
جرمنی میں گرجا گھر سخت پابندیوں کے ضوابط کی گرفت میں تھے اور اس باعث کم تعداد میں عبادت گزار کرسمس کی دعائیہ تقریبات میں شامل ہو سکے۔ فرینکفرٹ کیتھڈرل میں بارہ سو افراد کی گنجائش ہے لیکن صرف ایک سو سینتیس عبادت گزار کرسمس کا واعظ سننے پہنچے۔
بیلہجیم میں لوگوں نے اپنے کرسمس ٹری کھڑکیوں میں الٹے لٹکا کر ثقافتی مقامات میں داخلے پر پابندی کے خلاف احتجاج کیا۔ البتہ بیت لحم میں ہزاروں مقامی اور غیر ملکی زائرین کرسمس کی تقریبات میں ضرور شریک ہوئے۔ اس مرتبہ بیت لحم میں گہما گہمی گزشتہ برس کے مقابلے میں زیادہ تھی۔