سابق وزیر اعظم محترمہ بے نظیر بھٹو کو اس بات کا بھی اعزاز حاصل ہے کہ وہ پاکستان کی پہلی منتخب خاتون وزیراعظم بنیں ملک عزیز کے اس اہم عہدے پہ انہیں دو بارکام کرنے کا موقع ملا،دونوں بار کرپشن اور بد عنوانی کے الزامات کے باعث ان کی حکومت کو تحلیل کیا گیا پہلی بار بے نظیر بھٹو نے دو دسمبر1988ء میں 35 سال کی عمر میں ملک اور اسلامی دنیا کی پہلی خاتون وزیرِاعظم کے طور پر حلف اٹھایا لیکن صرف 20 مہینوں کے بعد اس وقت کے صدر پاکستان غلام اسحاق خان نے اپنے آئینی اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلیوں کو تحلیل کر دیا 1990ء کے انتخابات میں بے نظیر بھٹو کی پی پی پی الیکشن ہار گئی اور بطور قائد حزب اختلاف کا رول کیا جبکہ 1993ء کے الیکشن میں دوسری مرتبہ پھر وزیر اعظم منتخب ہو گئیں۔
اپنے والد ذوالفقار علی بھٹو کے بعد دوسری شخصیت تھیں جو دوسری بار وزیر اعظم کے عہدہ پہ فائز ہوئیں دوسری مرتبہ بھی انہیں اپنی مدت پوری کرنے کا موقع نہ دیا گیا اس بار ان کی حکومت کوغیروں نے نہیں بلکہ اپنوں نے ختم کی پیپلز پارٹی کے اپنے ہی صدر فاروق احمد خان لغاری نے 1996ء میں بدامنی اور بد عنوانی کرپشن اور ماورائے عدالت قتل کے اقدامات کے باعث بے نظیر کی حکومت کو برطرف کر دیااور یہیں سے فاروق لغاری اور پی پی پی کے راستے الگ الگ ہو گئے اور انہوں نے ملت پارٹی کے نام سے نئی پارٹی بنائی ان کی پارٹی کا انجام بھی پی پی پی کے بطن سے جنم لینے والی دیگر پارٹیوں سے مختلف نہ تھا کچھ ہی عرصہ بعد یہ پارٹی بھی اپنا وجود قائم نہ رکھ سکی بے نظیر بھٹو نے اپنی سیاسی اننگز بڑی ہنگامہ خیز کھیلی ان کا پاکستان کی سیاست میں ایک نمایاں رول تھا بینظیر بھٹو اپنے نام کی طرح بے نظیر تھیںسابق وزیر اعظم قائد عوام ذولفقار علی بھٹو کی دوسری بیوی سابق خاتون اول بیگم نصرت بھٹو کے ہاں چار بچے بے نظیر بھٹو،میرمرتضی بھٹو،صنم بھٹو اور شاہنواز بھٹو پیدا ہوئے ان میں بے نظیر بھٹو سب سے بڑی تھیں۔
صنم بھٹو ابھی حیات ہیں اور دیار غیر میں غیر سیاسی زندگی گزار رہی ہیں باقی تینوں بچے غیر طبعی موت کا شکار ہوئے میر مرتضی بھٹو اپنی بڑی بہن کے دوسرے دور اقتدار میں دن دیہاڑے بھرے بازار میں قتل کر دیئے گئے سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کی بڑی صاحبزادی بینظیربھٹو 21 جون، 1953ء میں سندھ کے مشہور سیاسی بھٹو خاندان میں پیدا ہوئیں بینظیر بھٹو نے ابتدائی تعلیم لیڈی جیننگز نرسری اسکول اور کونونٹ آف جیسز اینڈ میری کراچی میں حاصل کی اس کے بعد دو سال راولپنڈی پریزنٹیشن کونونٹ میں بھی تعلیم حاصل کی، جبکہ انھیں بعد میں مری کے جیسس اینڈ میری میں داخلہ دلوایا گیا انھوں نے 15 سال کی عمر میں او لیول کا امتحان پاس کیا اپریل 1969ء میں انھوں نے ہارورڈ یونیورسٹی کے کالج ریڈکلائف میں داخلہ لیا بے نظیر بھٹو نے ہارورڈ یونیورسٹی سے 1973ء میں پولیٹیکل سائنس میں گریجوایشن کر لیا اس کے بعد انھوں نے آکسفورڈ یونیورسٹی میں داخلہ لیا جہاں سے انہوں نے فلسفہ، معاشیات اور سیاسیات میں ایم اے کیا وہ اکسفورڈ یونیورسٹی میں اپنے ہم عصر طالب علموں میں نمایاں تھیں۔
بینظیر برطانیہ سے تعلیم حاصل کرنے کے بعد جون 1977ء میں وطن عزیز پاکستان واپس آئیں ان کی وطن واپسی سے صرف دو ہفتے بعد ملکی حالات کشیدہ ہونے پہ5جولائی 1977کو اس وقت کے چیف آف آرمی اسٹاف جنرل ضیاء الحق نے ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کا تختہ الٹتے ہوئے بھٹو صاحب کو جیل بھیجنے کے ساتھ ساتھ ملک میں مارشل لا نافذ کر دیا اور ساتھ ہی بے نظیر بھٹو کو بھی گھر کے اندر نظر بند کر دیا گیااپریل 1979ء میں سپریم کورٹ آف پاکستان نے ذوالفقار علی بھٹو کو قتل کے ایک متنازع کیس میں پھانسی کی سزا سنا دی مارشل لاکے خاتمے اور جمہوریت کی بحالی کے لیے 1981ء میں ایم آر ڈی کے نام سے اتحاد بنایا گیا دسمبر 1983ء میں تحریک کو ختم کرنے کا اعلان کیا۔
1984 ء میں بے نظیر کو جیل سے رہائی ملی، دو سال تک برطانیہ میں جلاوطنی کی زندگی گزاری انہیں پیپلزپارٹی کے رہنماؤں نے پارٹی کا سربراہ بنا دیاتاحیات پی پی پی کی سربراہ رہیں جونیجو حکومت نے ملک سے مارشل لا ختم کیا تو 10 اپریل 1986ء میں بے نظیربھٹو لاہور ایئر پورٹ پہ اتریں ان کا فقید المثال استقبال کیا گیالاکھوں لوگ بھٹو کی بیٹی کی ایک جھلک دیکھنے کو بے تاب نظر آئے لاہور میں یہ پیپلز پارٹی کا پاور شوسیاسی تاریخ میں ہمیشہ کے لئے امر ہوگیا 1987ء میں نواب شاہ کے حاکم علی زرداری کے بیٹے آصف علی زرداری سے رشتہ ازدواج میں منسلک ہو گئیں۔
ان کے ہاں تین بچے بلاول،بختاور اور آصفہ ہوئے ان کے بڑے صاحبزادے بلاول بھٹو اب پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین ہیںپی پی پی کی قیادت بے نظیر بھٹو کی ایک وصیت کے مطابق بلاول بھٹوکو سونپی گئی پی پی پی کے ووٹرز کی اب ساری امیدیں بلاول سے وابستہ ہیںبلاول نے پارٹی کی گرتی ہوئی ساکھ کو بحال کرنے کی کوشش کی ہے اپنے اردگرد خوشامدی ٹولے کو پیچھے دھکیلتے ہوئے پرانے جیالوں کو آگے لانے کے ساتھ ساتھ کارکنوں کی عزت نفس کی بحالی بھی ضروری ہے وہ مخلص اور بانی کارکن جو پارٹی کو خیر باد کہہ چکے ہیں یا پھر ”مفاہمتی پالیسی ” کے باعث گھروں میں جا بیٹھے ہیں ا نہیں منا کر دوبارہ پارٹی میں لانا وقت کی اہم ضرورت ہے۔
28 جولائی 2007ء کو ابوظہبی میں جنرل پرویز مشرف اور بے نظیربھٹو کے درمیان ایک اہم ملاقات ہوئی جس کے بعد پیپلز پارٹی کی چیئرپرسن تقریباً ساڑھے آٹھ سال کی جلاوطنی ختم کر کے 18 اکتوبر کو وطن واپس آئیں تو ان کا کراچی ائیرپورٹ پر فقید المثال استقبال کیا گیا2008 ء کے عام انتخابات میں الیکشن مہم کے سلسلہ میں27دسمبر2007ء کو لیاقت باغ راولپنڈی میں جلسہ عام کے بعد دہشت گردی کی بھینٹ چڑھ گئیں انہیں راولپنڈی جنرل اسپتال لے جایا گیا لیکن وہ زخموں سے جاں بر نہ ہوسکیں اور شام 5 بجکر 10 منٹ پر اپنی جان، جان آفریں کے سپرد کرگئیں اگلے روز انہیں آہوں اور سسکیوں میں ان کے والد اور بھائیوں کے پہلو میں گڑھی خدا بخش، لاڑکانہ میں سپردخاک کردیا گیارب کائنات ان کے درجات بلند فرمائے آمین۔