میں سکتے کے عالم میں عجیب و غریب حیران کن منظر دیکھ رہا تھا ایسا منظر تو میں نے خواب میں بھی کبھی نہیں دیکھا تھا حیرت سے میری آنکھیں پھٹنے کو تھیں کہ یہ کرشمہ کرامت یا کارنامہ کیسے وقو ع پذیر ہو ا میں نے بے یقینی کے عالم میں بار بار اپنی آنکھوں کومسلا خود کو چھو کر دیکھا کہ یہ منظر میں جاگتی آنکھوں سے دیکھ رہا ہوں کہ یا کوئی خواب ہے لیکن یہ واقعی جیتا جاگتا منظر تھا کہ میری زندگی کا کنجوس ترین شخص ہاتھ میں پکڑے سو پانچ سو اور ہزار روپے کے نوٹ شاہ خرچی سے مالیوں سیکورٹی گارڈوں غریب ملازمین میں بانٹ رہا یہ وہ شخص جو کسی کو اپنا ایک بال بھی نہیں دیتا تھا جس کی کنجوسی کے چرچے پورے شہر میں پھیلے ہوئے تھے جس کی بیوی اور بچے کئی بار میری سفارش کرا چکے تھے کہ شیخ صاحب زندگی بھر کی دولت پر سانپ بن کر بیٹھے ہیں نا تو اپنی ذات پر اور نہ ہی اپنے فیملی پر خرچ کر تے ہیں کنجوسی کا یہ عالم کہ سستی ناقص خوراک کی وجہ اہل خاندان اکثر مختلف بیماریوں کا شکار رہتے یا دوائی نہ لینے کی وجہ سے عام بیماری کا شدت اختیار کر جانایہاں تک کہ فیملی ممبر موت کی دہلیز تک پہنچ جاتا لیکن کنجوس اعظم کے کان پر جون تک نہ رینگتی خاندان کے زور دینے پر جب میں نے کبھی سمجھانے کی کو شش کی تو شیخ صاحب فرماتے میں نے ایک ایک روپیہ خون پسینا لگا کر کمایا ہے اِس لیے میں اِس کو بلکل بھی ضائع نہیں کروں گا۔
اگر شیخ صاحب کو قائل کرنے کی جسارت کی جاتی کہ بیماری زیادہ شدت اختیار کر گئی تو موت واقع ہو سکتی ہے تو آپ فرماتے موت کا ایک دن مقرر ہے وہ اُسی اٹل وقت پر ہی آئے گی شیخ صاحب کے پاس ہر سوال اعتراض کا مکمل بھر پور جواب تھا اگر شیخ صاحب کو سخاوت خدمت خلق کا لیکچر دیتا تو شیخ صاحب کمال حقارت آمیز لہجے میں فرماتے یہاں پر حق دار ہے ہی نہیں پاکستان میں سب امیر ہیں یہاں پر فراڈی دھوکے باز ہیں اِن کو زکوة سخاوت نہیں لگتی دوسروں کی مدد سخاوت کرنا توبہت دور کی بات شیخ صاحب کو زندگی کی گاڑی چلانے کے لیے اناج اور مختلف چیزوں کی جو ضرورت پڑتی اُس کے لیے خون پسینے کی کمائی خرچ کرنا پڑتی شیخ صاحب ایک دمڑی خرچ کرنے سے پہلے یہ سوچھتے کہ یہ چیز کہاں سے سستی ترین مل سکتی ہے درمیان میں منافع کمانے والوں کو اپنا دشمن سمجھتے لہذا منڈیوں اور دیہات میں جا کر کھیتوں سے غذائی اجناس سستے داموں حاصل کر کے اپنے خزانے کا قداور بڑھاتے ہر وقت اِسی کھوج میں لگے رہتے کہ کس طرح کہاں سے چیز سستی مل سکتی ہے اور کس طرح گھر اور کاروبار کے اخراجات کو کم سے کم کیا جا سکتا ہے۔
کفایت شعاری کنجوسی کے ایسے ایسے طریقے وضع کر رکھے تھے کہ سننے والا حیران پریشان ہو نے کے بعد کانوں کو ہاتھ لگاتا کہ یہ کفایت شعاری ہے یا نفسیاتی پاگل پن کہ اللہ تعالی نے انعامات اور دولت کی بارش کر رکھی ہو لیکن نہ اپنی ذات پر نہ ہی اپنے خاندان پر لگانا شیخ صاحب کی کنجوسی سزا کے مرحلے میںداخل ہو گئی تھی اہل خاندان پر شیخ صاحب کی طرف سے وارد ایک سزا کا عمل تھا جو بیچارے کاٹ رہے تھے شیخ صاحب اپنی کنجوسی کی شرم ناک حرکتوں کی وجہ سے محلے خاندان اور شہر میں بد نام ہو چکے تھے لیکن اِس بد نامی کا شیخ صاحب پر کوئی اثر نہ ہوتا وہ اپنی کنجوسی کی اعلیٰ روایات کو مضبوط سے مضبوط کرنے میں ہمہ تن گوش تھے شیخ صاحب کی شخصیت کے یہ شرم ناک پہلو میرے سامنے چند سال پہلے اُس وقت آئے جب اپنی بیٹی کے رشتے کے سلسلے میں یہ میرے دوست کی وساطت سے میرے پاس آئے تھے شیخ صاحب کی بیٹی کی عمر نکلتی جا رہی تھی بیٹی خوبصورت ہونے کے ساتھ خوب سیرت بھی تھی لیکن شیخ صاحب کی کنجوسی کی وجہ سے کوئی بھی اِن سے رشتہ کرنے کو تیار نہیں تھا۔
شروع میں تو شیخ صاحب پر کوئی اثر نہ ہوا لیکن بیٹی کی ساری سہیلیوں کی شادیاں ہو گئیں تو گھر والوں نے احتجاج کر نا شروع کر دیا کہ ابھی بھی اگر آپ خواب غفلت سے بیدار نہ ہوئے تو بیٹی کے بالوں میں چاندی اور چہرے کی لالی میں زردی بڑھاپا آنے سے پھر اِس کا رشتہ کہیں بھی نہیں ہو گا اب گھر والوں کے شور ڈالنے پر شیخ صاحب حرکت میں آئے کو شش شروع کی لیکن شیخ صاحب کی سر توڑ کو ششیں بھی رنگ نہ لائیں بیٹی کا رشتہ نہ ہوا تو شیخ صاحب نے روحانی علاج اور رشتے کی بندش کا علاج کروانے کے لیے مختلف بابوں بزرگوں کے پاس جانا شروع کر دیا اب شہر میں پھیلے ہوئے بنگالی جادوگروں نے جب بھاری معاوضے کا تقاضہ کیا تو شیخ صاحب مُجھ تک آگئے جب شیخ صاحب کو پتہ چلا کہ میں پیسے نہیں لیتا اللہ کے لیے کرتا ہوں تو میں اِن کی کسوٹی پر پورا اترا اب یہ ریگولر میرے پاس آنا شروع ہو گئے تو اِن کے اہل خانہ سے بھی ملاقاتیں شروع ہو گئیں تو مجھے شیخ صاحب کی کنجوسی کے کارناموں کا پتہ چلا کنجوسی کفایت شعاری کے ایسے ایسے راز حرکتیں کہ انسان حیرتوں کے سمندر میں غرق ہو تا جائے کہ کوئی انسان دولت کے حصول اور کنجوسی کے لیے ایسے بھی کر سکتا ہے انسان کا مطالعہ میرا پسندیدہ مشغلہ یہاں میں نے شیخ صاحب کا خوب مطالعہ کیا کہ انسان اِس طرح کے بھی ہوتے ہیں۔
بہر حال چند ماہ کے بعد ہی اللہ کے فضل سے شیخ صاحب کی بیٹی کا رشتہ ہو گیا تو اب شیخ صاحب کو مُجھ سے کوئی کام نہیں تھا لہذا انہوں نے واپس مُڑ کر میری طرف نہیں دیکھا آج کئی سالوں بعد شیخ صاحب کو بے دردی سے اپنی دولت اڑاتے دیکھا تو مجھے اپنی بصارت پر یقین نہ آیا کہ یہ وہی شیخ صاحب ہیں جو گھر والوں کے مرنے پر خرچ نہیں کر تے تھے آج ضرورت مندوں کو ہزاروں روپے بانٹ رہے ہیں میں خوشگوار حیرت سے شیخ صاحب کے پاس گیا اور بولا شیخ صاحب یہ کیا کرشمہ ہے آج تو حاتم طائی بھی قبر میں کروٹیں لے رہا ہو گا کہ کون میری شہرت کے پیچھے پڑگیا آپ تو اُس کے کارناموں پر بھی مٹی ڈال رہے ہیں توشیخ صاحب مجھے لے کر اپنی کار کی طرف بڑھے دروازہ کھولا اور مجھے ایک اور جھٹکا دے دیا کار میں بہت ساری گرم چادریں اور ڈرائی فروٹ کے پیکٹ پڑے تھے شیخ صاحب مجھے دکھا کر بولے پروفیسر صاحب یہ میں ضرورت مند وں میں بانٹ رہا ہوں اب میں نے شیخ صاحب کو چٹکی کاٹی اور پوچھا شیخ صاحب یہ آپ ہی ہیں یا میںکوئی خواب دیکھ رہا ہوں تو شیخ صاحب مجھے کا ر کی اگلی سیٹ پر بٹھا کر ساتھ والی سیٹ پر بیٹھ کر بولے پروفیسر صاحب میں آپ کو بتاتا ہوں یہ انقلاب کیسے آیا اِس تبدیلی کی وجہ کیا ہے۔
چند ماہ پہلے جب کرونا بیماری ساری دنیا کو لپیٹ میں لے کر تباہی مچا دی تو میں بھی کرونا میں مبتلا ہو گیا جب گھر والوں نے مجھے سرونٹ کوارٹر میں بند کر دیا اب مجھے جانوروں کی طرح کھانا دیا جاتا شودر سمجھ کر الگ کر دیا گیا تھا کرونا اور موت کی چاپ میں ہر وقت سن رہا تھا میں موت کی دہلیز پر تھا کہ اللہ تعالی نے میری دعائیں سن لیں میں صحت مند ہو گیا یہ وہ پہلا جھٹکا تھا جس نے مجھے بد ل کر رکھ دیا اب میں نے اپنی ذات اور خاندان والوں پر پیسہ خرچ کرنا شروع کر دیا لیکن اصل تبدیلی اُس وقت آئی جب حالیہ ڈینگی کی وبا نے مجھے جکڑ لیا ناک سے خون جاری میں بار بار بے ہوش ہو جاتا اب مجھے موت کا مکمل یقین تھا کمزوری اِس قدر کے ایک قدم بھی چل نہ سکتا تھا ڈینگی نے مجھے موت کا ذائقہ چکھا دیا اللہ کو مُجھ پرپھر ترس آیا میں نے بہت معافیاں مانگیں تو میں صحت مند ہو گیا اب مجھے سمجھ آگئی کہ یہ سارا پیسہ دولت یہیں رہ جائے گی کام وہی آئے گا قبر اور آخرت میں بحث صرف تب ہو گھی جب دولت لوگوں کے نام آئے گی اب میں اپنی ذات اور لوگوں پر دل کھول کر خرچتا ہوں آپ مجھے درس دیتے تھے اِس لیے آج آپ کے پاس آیا پھر شیخ بہت ساری باتیں کر تے چلا گیا اور میں قدرت کے قوانین اور رازوں پر حیران کہ کس طرح اللہ کی ذات برائی بیماری سے خیر کا پہلو نکالتی ہے کس طرح کرونا اور ڈینگی کی کوکھ سے اچھائی نے جنم لیا شیخ صاحب کنجوسوں کی لسٹ سے نکل کر سخیوں میں شامل ہو گئے۔
Prof Muhammad Abdullah Khan Bhatti
تحریر:پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی ای میل: help@noorekhuda.org فون: 03004352956 ویب سائٹ: www.noorekhuda.org فیس بک آفیشل پیج: www.fb.com/noorekhuda.org