دسمبر 2019ء میں چین سے شروع ہونے والے کورونا وائرس کو 2 سال مکمل ہو چکے۔ اِس دوران ایلفا، بِیٹا، گیما اور ڈیلٹا نامی وائرس سامنے آئے جن سے دنیا میں کروڑوں لوگ متاثر ہوئے اور لاکھوں جاں بحق۔ کورونا کی ویکسین کی دریافت کے بعد عام خیال یہی تھا کہ 2022ء میں کورونا سے نجات مل جائے گی لیکن اب کورونا کی نئی قسم ”اومی کرون” اپنے جلوے دکھا رہی ہے۔ یوں تو کورونا کی ہر قسم ہی خطرناک ہے لیکن اومی کرون کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ یہ کورونا کی سب سے زیادہ تیزی سے پھیلنے والی قسم ہے۔ اِس کی تیزی کا یہ عالم ہے کہ محض دو سے تین دنوں میں اِس کے کیسز دوگنا ہو جاتے ہیں۔ اومی کرون کی علامات دوسرے کورونا ویرینٹ سے مختلف ہیںجس میں خشک کھانسی، زخمی گلا، بے انتہا تھکاوٹ، پٹھوں کا کھنچاؤ، رات کو پسینہ آنا اور پیٹ کی خرابی شامل ہیں۔ عالمی ادارہ صحت خبردار کر چکا ہے کہ اومی کرون سے دنیا بھر میں کورونا وبا کی نئی لہر پھیل سکتی ہے۔ ڈبلیو ایچ او کے سربراہ ٹیڈرس نے کہا ہے کہ اومی کرون اور ڈیلٹا سے نئے کیسز کا سونامی آئے گاجس سے دنیا بھر کا نظامِ صحت تباہی کے دہانے تک پہنچ جائے گا۔
آمدہ اطلاعات کے مطابق دنیا بھر میں 22 سے 28 دسمبر کے دوران یومیہ کیسز کی شرح 9 لاکھ 35 ہزار سے زائد رہی اور 7 دنوں میں 65 لاکھ 50 ہزار کیسز سامنے آئے جو کورونا کے آغاز سے اب تک کسی ایک ہفتے کے کیسز کی ریکارڈ شرح ہے۔ یہ شرح ماضی کے مقابلے میں 37 فیصد زیادہ ہے۔ امریکہ میں 28 دسمبر کو ریکارڈ 4 لاکھ 65 ہزار لوگ کورونا سے متاثر ہوئے۔ امریکی ماہرین کے مطابق جنوری کے آخر تک کورونا کیسز اپنے عروج پر پہنچ جائیں گے۔ اِس ایک ہفتے کے دوران امریکہ میں 5000 سے زائد ڈومیسٹک اور انٹرنیشنل فلائیٹس یا تو منسوخ کر دی گئیں یا پھر تاخیر کا شکار ہوئیں۔ برطانیہ میں 24 گھنٹوں کے دوران ایک لاکھ 83 ہزار سے زائد اور فرانس میں 2 لاکھ 6 ہزار کیسز رپورٹ ہوئے۔
جرمنی، ڈنمارک، یونان، پرتگال، اسٹریلیا، بلجیم، ہالینڈ اور بھارت میں بھی ریکارڈ کیسز سامنے آرہے ہیں جبکہ یہ ویرینٹ پاکستان میں بھی پہنچ چکا ہے۔ لاہور اور کراچی سمیت مختلف شہروں میں اومی کرون کے کیسز رپورٹ ہو چکے ہیں۔ 30 دسمبر کو اسلام آباد میں اومی کرون کے 34 کیسز رپورٹ ہو چکے ہیں۔ ڈی ایچ او اسلام آباد کے مطابق وفاقی دارالحکومت میں 6 دنوں میں اومی کرون کے کیسز کی تعداد 64 تک پہنچ گئی۔ لاہور میں بھی اومی کرون کے 33 کیسز رپورٹ ہوئے۔ یہی صورتِ حال ملک کے دوسرے شہروں کی بھی ہے جہاں کورونا کیسز میں ایک دفعہ پھر تیزی آگئی ہے۔ جان لیوا کورونا پوری دنیا میں اپنے پَر پھیلا رہا ہے۔
علاج اِس کا ماسک اور سماجی فاصلہ کیونکہ جو لوگ ویکسینیشن کا کورس مکمل کر چکے ہیں، وہ بھی اِس موذی مرض کا شکار ہو رہے ہیں۔ اب طبّی ماہرین بوسٹر ڈوزز کی تلقین کر رہے ہیںلیکن حقیقت یہی کہ اِس سے بچاؤ ماسک اور سماجی فاصلے ہی میں ہے جس کی طرف پاکستان تو کجا پوری دنیا کے عوام کی کم ترین توجہ ہے۔ ہم اِن دنوں امریکہ میں ہیں اورجب کبھی باہر نکلتے ہیں تو ہمیں خال خال لوگ ہی ماسک پہنے نظر آتے ہیں۔ یہی حال پاکستان کا ہے جہاں ماسک پہننا کسرِشان سمجھا جاتا ہے۔ یہ محض اللہ کا کرم ہے کہ وطنِ عزیز کورونا کی تباہ کاریوں سے بچا ہوا ہے۔ امریکہ جیسے امیر ملک میں جتنے لاکھ اموات ہوئی ہیں اُن سے کم ہمارے ملک میں کیسز رپورٹ ہوئے ہیں البتہ کورونا وائرس کی پاکستان میں ایک ایسی قسم بھی پائی جاتی ہے جو اومیکرون سے بھی زیادہ خطرناک ہے۔ نام اِس قسم کا ”ترین” ہے جو اپنی تباہ کاریوں میں کورونا کی ہر قسم کو مات دے رہی ہے۔
یوں تو وزیرِاعظم ہمہ وقت پیپلزپارٹی اور نوازلیگ کورگیدتے ہوئے تباہی کے ذمہ دار انہی سیاسی جماعتوں کو ٹھہراتے رہتے ہیں لیکن حیرت ہے کہ
میر کیا سادا ہیں بیمار ہوئے جس کے سبب اُسی عطار کے لڑکے سے دوا لیتے ہیں
عرض ہے کہ عبد الحفیظ شیخ اور شوکت ترین پیپلزپارٹی کے دَور میں وزیرِخزانہ تھے جو خاںصاحب کے خیال میں قرضے لے کر ملک کو دیوالیہ کر گئے، وہی اب تحریکِ انصاف کے نزدیک انتہائی قابلِ اعتماد ٹھہرے۔ پہلے حفیظ شیخ کو درآمد کرکے وزارتِ خزانہ سونپ دی گئی لیکن وہ سینٹ کا انتخاب ہار گیا اِس لیے اُس کی چھٹی کروا کر شوکت ترین کو یہ منصب سونپ دیا گیا۔ اب شوکت ترین کو مشیرِخزانہ سے وزیرِخزانہ بنانے کے لیے اُسے سینیٹر بنوا دیا گیا ۔ سوال یہ کہ جب یہ دونوں اصحاب پیپلزپارٹی کے دور میں بقول وزیرِاعظم معیشت کے تباہی کے دہانے پر لے آئے تو اب اِن سے خیر کی توقع کیوںکر کی جا سکتی ہے۔ شوکت ترین نے آئی ایم ایف کے قدموں میں بیٹھ کر اُس کی تمام شرائط مان لیں جنہیں وہ اب مِنی بجٹ کی صورت میں پورا کرکے مہنگائی کے مارے عوام سے جینے کا حق بھی چھیننے کے لیے کوشاں ۔
قومی اسمبلی میں مِنی بجٹ پیش کر دیا گیا جس پر اپوزیشن نے شورشرابا تو بہت کیا لیکن نتیجہ حسبِ سابق گلاس توڑا، بارہ آنے ہی نکلے گا۔ حکومت اِس مِنی بجٹ میں تقریباََ 150 اشیاء پر سیلز ٹیکس بڑھانے کی تجویز ہے جن سے آئی ایم ایف کے حکم کے مطابق 343 ارب روپے کا اضافی ریونیو حاصل ہو سکے گا لیکن اِس مِنی بجٹ سے گاڑیاں، ادویات، ڈبل روٹی، موبائل فون، بچوں کا دودھ، مکھن، کریم، دیسی گھی، مٹھائیاں اور مصالہ جات، سبھی کی قیمتیں بڑھ جائیں گی۔ حکومت کمپیوٹر، آئیوڈین نمک، درآمدی گوشت، بیکری آیٹمز، لگژری اشیائ، نیوزپرنٹ، کتابیں، سلائی مشینیں، کپاس کے بیج اور اشیائے خورونوش کی 59 اشیاء پر 17 فیصد جنرل سیلز ٹیکس لگانے جا رہی ہے۔ اِس مِنی بجٹ میں ڈیوٹی فری شاپس پر بھی پہلی بار 17 فیصد سیلزٹیکس کی تجویز ہے۔ مشینری پر 112 ارب اور فارماسیوٹیکلزپر 160 ارب روپے کی چھوٹ ختم کر دی گئی ہے۔ مشیرِخزانہ شوکت ترین نے کہا کہ عام آدمی پر صرف 2 ارب روپے ٹیکس لگے گا۔ تو کیا باقی 343 ارب روپے کا ٹیکس چین سے وصول کیا جائے گا یا امریکہ سے؟۔ بھئی! خربوزہ چھُری پر گرے یا چھری خربوزے پر، نقصان تو بیچارے خربوزے کا ہی ہوگا۔ یہ 343 ارب روپے گھوم پھر کر عام آدمی کی جیب ہی سے نکلیں گے۔ جب فارماسیوٹیکلز کی 160 ارب روپے کی چھوٹ ختم ہوگی تو کیا ادویات مہنگی نہیں ہوںگی؟۔ پتہ نہیں شوکت ترین کس کو بیوقوف بنانے کی کوشش کر رہا ہے۔ ایف بی آر کے سابق چیئرمین شبرزیدی نے کہا کہ پاکستان دیوالیہ ہو چکا۔ ہم کہتے ہیں کہ اگر دیوالیہ نہیں بھی ہوا تو اِس مِنی بجٹ کے بعد ضرور ہو جائے گا۔
وزارتِ خزانہ کی جاری کردہ ماہانہ اقتصادی رپورٹ ملک میں مثبت معاشی اشاریوں کی طرف اشارہ کر رہی ہے ۔ سوال مگر یہ ہے کہ جب غریب طبقہ مسلسل پِس رہا ہو، مہنگائی آسمانوں سے باتیں کر رہی ہو، تعلیم اور علاج ومعالجے کی سہولیات محض خواب بن کے رہ گئی ہوں تو پھر اِن مثبت معاشی اشاریوں پر کون یقین کرے گا۔ادارہ شماریات کی رپورٹ کے مطابق 2021ء میں ریکارڈ مہنگائی ہوئی جس میں آٹے کا 20 کلو کا تھیلا 200 روپے اور گھی 143 روپے فی کلو مہنگا ہوا۔ چینی ساڑھے سات روپے، ایل پی جی کا گھریلو سلنڈر 1022 روپے، دودھ 9 روپے فی لٹر اور دہی 11 روپے فی کلو مہنگا ہوا۔ مٹن 164 روپے اور بیف 100 روپے کلو مہنگا ہوا۔ پٹرولیم مصنوعات 39 روپے مہنگی ہوئیں۔ رپورٹ کے مطابق 17 ہزار روپے ماہانہ کمانے والے افراد کے لیے مہنگائی 21.92 فیصد کی سطح پر پہنچ گئی ہے۔میاںشہبازشریف نے درست کہا ”عمران نیازی نے معاشی جنگ میں آئی ایم ایف کے آگے ہتھیار ڈال دیئے۔ سٹیٹ بینک کی چابیاں آئی ایم ایف کو دینے اور مِنی بجٹ کے تباہ کُن اثرات آنے والے ماہ وسال میں نکلیں گے۔ سفاکی وبے حسی کی انتہا ہے کہ کہا جا رہا ہے کہ غریب عوام پر اِس کا بوجھ نہیں پڑے گا۔” یقین سے کہا جا سکتا ہے کہ احتیاطی تدابیر کے بعد ”اومی کرون” سے تو بچنے کی کوئی صورت نکل سکتی ہے لیکن ”ترین کرون” کی تباہ کاریوں سے نہیں۔