کالے بدلیاتی قانون کے خلاف جماعت اسلامی کا دھرنے تیسرے روز بھی جاری رہا۔شہریوں کی بڑی تعداد نے اس میں شرکت کی۔کراچی میں سردی کی یخ بستہ ہوائیں شرکا کے عزام کو ٹھنڈا نہیں کر سکیں۔ بلکہ آج سے کراچی کی خواتین بھی اس تاریخی دھرنے میں شامل ہونے جا رہی ہیں۔ اس سلسلے میں حلقہ خواتین جماعت اسلامی کی اسماء سفیر نے اعلان کیا ہے کہ کراچی کی تاریخ میں خواتین کا سب سے بڑا دھرنا سندھ اسمبلی کے سامنے ہوگا۔دھرنے میں شریک ایک شہری قاسم جمال نے کہا کہ کالا قانون واپس لینے پر حوکت سندھ کو مجبور کر دیں گے۔ محمود حامد تاجر رہنمانے جماعت اسلامی کے دھرنے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ دھرنا کراچی کے مظلوم و محکوم عوام کے لیے امید کی کرن ہے انہوں ے کہا کہ سندھ حکومت مافیا کی شکل اختیار کر چکی ہے۔کالا قانون پاس کر کے بلدیات پر قبضہ کر کے عوام کو غلام بنانا چاہتی ہے۔اس کی یہ خواہش کبھی بھی پوری نہیں ہو گی۔
نیشنل لیبر فیڈریشن کے خالد خان مزدوروں کا ایک بڑا جلوس لے کر دھرنے میں شرکت کے لیے آئے ۔شرکاء نے نعروں سے استقبال کیا۔سرکلر ریلوے کے متاثرین بھی دھرنے شرکت کے لیے پہنچے۔محنت کشوں اور سماعت سے محروم افراد نے بھی دھرنے میں شرکت کی۔متاثرین گرین لین سٹی نے شرکت کرتے ہوئے کہ کی جماعت اسلامی نے ہمیشہ ظالم حکمرانوں کے سامنے متاثرین کی آوازاُٹھائی۔ان حالات میں کراچی کا دھرنا کراچی سمیت ملک بھر کا موضوع بحث بن گیا۔بلکہ ہمیں تو یہ دھرنا پاکستان قومی اتحاد کے احتجاج سے ملتا جلتا نظر آ رہا ہے۔ پاکستان قومی اتحاد بھٹو کے مظالم اور الیکشن میں دھاندلی کی وجہ سے وجود میں آیا تھا۔
آج پھر پیپلز پارٹی کے سندھ حکومت کے کالا قانون کے عوام پر ظلم کی وجہ سامنے آیاہے۔ ایسا ہی ایک دھرنا جماعت اسلامی کے سابق امیر قاضی حسین احمد مرحوم نے راولپنڈی اسلام میں میں بھی پیپلز پارٹی کی حکومت کے خلاف دیا تھا، جس میں بے نظیر حکومت کے اس وقت کے وزیر داخلہ نصیراللہ بابر نے قاضی صاحب کو چلیج کیا تھا۔ راولپنڈی لیاقت باغ کے سامنے پولیس گردی کی تھی۔ جس میں قاضی حسین احمد کے پر امن جلوس پر فائرنگ کی وجہ سے جماعت اسلامی کی کئی کارکن شہید ہوئے تھے۔ جس کا مقدمہبے نظیر کے نام قائم کیا گیا تھا۔ اس کے ظلم کے خلاف قاضی حسین احمد ڈٹ گئے تھے ۔بے نظیر ہیلی کاپٹر کے ذریعے اسلام آباد سے چلی گئی تھی۔ پھر اسی دھرنے کی وجہ سے سے بے نظیر کے حکومت ختم ہوئی تھی۔ اس لیے ہم پیپلزپارٹی کے سندھ کے حکرانوں کو یاد کرانے کے کہہ رہے ہیں کہ آپ کے بڑے بھی جماعت اسلامی کے سامنے نہیں ٹک سکے تھے۔ آپ بھی ان پر امن جماعت اسلامی کے دھرنے کے سامنے ٹک نہیں سکیں گے۔ س
یدھے طریقے اور جمہوری انداز میں ان کی جائز مطالبات مان لیے جائیں ورنہ نتائج کے یے تیار ہوجائیں۔دھرنے کے تیسری روز جب شہریوں کی بڑے تعداد آئی تو پویس جمع ہونے پر شرکا میں اشتعال پیدا ہوا۔اس پر جماعت اسلامی کراچی کے امیر حافظ نعیم نے کہا کہ حکومت نے شرارت کی تو سیکر ٹیریٹ بند کر دیں گے۔جماعت اسلامی امن پسند اور جمہوری جماعت ہے۔تین دن سے دھرناپر امن ہے۔سندھ حکومت حالات خراب کرنے کی کوشش کی تو کرپشن کے اڈے سندھ سیکر ٹریٹ کو بند کر دیں گے۔ کراچی کے شہریوں کو حق دیناہو گا۔ کالا بلدیاتی قانون کسی بھی صورت قبول نہیں کریں گے۔ مطالبات منظور ہونے تک جد وجہد جاری رہے گی۔پی ٹی آئی حکومت اعلانات اور غریبوں کی کمین گائیں تباہ کرنے کے سوا کچھ نہیںکیا۔ جماعت اسلامی کے دھرنے سے جماعت ضلع جنوبی کراچی کے امیر اور ممبرسندھ اسمبلی نے بھی خطاب کیا۔
پیپلزپارٹی نے ہمیشہ کراچی کی بلدیاتی اداروں کو اپنے کنٹرول میں رکھا۔ بلدیاتی الیکشن نہیں کروائے۔ ایڈمنسٹریر تعینات کر کے کراچی کے وسائل کو لوٹا۔ جماعت اسلامی نے اپنے میئر عبدلاستار افغانی کے دو ٹرم میئر شپ میں اور نعمت اللہ خان کے سٹی ناظم کے دوران کرا چی کے عوام کے حقوق بحال کیے۔ شہر میں بے مثال ترقیاتی کام ہوئے۔ سڑکیںاور کئی فلائی اور اور انڈر پاس اورپارک بنے۔ شہر میں تعلیم کے لیے لاتعدادکالج قائم کیے۔ پانی کے لیے کے فور منصوبہ منظور کیا۔ صحت کے لیے کئی نئے ہسپتال قائم کیے۔ سب سے بڑی بات کی کرپشن کا نام نشان ختم کیا۔ کسی قسم کا بھی نیا ٹیکس نہیںلگا ۔صرف کرپشن کو روکا لگایا اور بلدیہ کابجٹ ہزاروں گنا زیادہ کیا۔پیپلز پارٹی کی طرح ایم کیوایم نے بھی کرپشن کی ۔ پارک پر اپنے سیاسی دفاتر بنائے۔ نعمت اللہ خان نے عدالت میں ان دفاتر کو ختم کرنے کے لیے مقدمہ قائم کیااور سپریم کورٹ نے نعمت اللہ خان کے حق میں فیصلہ دیا۔ پارکوں سے ایم کیوایم کے سیاسی دفاتر ختم کرنے کے لیے انتظامہ کو حکم دیا ۔ مگر انتظامیہ نے ٹال موٹول سے کام لیا۔ عبدالستار افغانی کے میئر شپ کے دوران جب اس نے سندھ گورنمنٹ کے سامنے سوال رکھا کہ کراچی کی سڑکیںتو بلدیہ بنائے اور ویکلزٹیکس سندھ حکومت عوام سے وصول کرے یہ زیادتی ہے۔ اسے بلدیہ کا حق تسلیم کرنا چاہیے۔ مگر غوث علی شاہ جسے ڈکٹیٹر
جنرل ضیا ء نے لگایا تھا نہیں مانا اور دفعہ ١٤٤ لگا دی۔ ؟ اس پر میئر کراچی عبدالستار افغانی نے قانون کا پاس رکھتے ہوئے دو ۔دو کی ٹولیوں میں اپنے ایک سو ایک بدلیاتی کونسلوں کے ساتھ مناسب فاصلہ رکھتے ہوئے بلدیہ سے سندھ اسمبلی تک احتجاج کیا تھا۔مگر پولیس گردی کے ذریعے اس جائز مطالبہ کو ختم کرنے کی کوشش کی۔میئر سمیت ایک سو ایک بلدیانی کونسلروں کو جیل میں بند کر دیا۔بعد میں عدالت نے اس کو رہا کیا۔
صاحبو! یہ ساری کہانی بناتے کا مقصد یہ ہے کہ کراچی کے عوام کے نہ پیپلز پارٹی،نہ ایم کیوایم اور نہ ہی پی ٹی آئی ہمدرد ہے۔ کراچی کے عوام کی کی صرف دینی اور نظریاتی جماعت اسلامی ہمدرد ہے۔ اس کا شاندار ماضی ہے جو اور بیان کر دیا گیا۔ ان ایک بار پھر پیپلز پارٹی نے کالا قانون پاس کیاہے جس کراچی کے عوام کے جائز حقوق سلب کر لیے گئے ہیں۔ جس کے سامنے جماعت اسلامی دیواد بن کے کھڑی ہو گئی ہے۔ کراچی کے عوام کا کام کے اس موقعہ سے فاہدہ اُٹھائیں اور جماعت اسلامی کے دھرنے میںجو در جوک شریک ہوں۔ اتنے تعداد میں گھروں سے باہر نکل آئین کہ پیپلز پارٹی عوام کے سمندر کے سامنے گھٹنے ٹیک دے اور کالا قانون واپس لینے پر مجبور ہو جائے۔ کراچی کی دوسری سیاسی پارٹیوں سے بھی یہی درخواست ہے کہ وہ اس نازک موقعہ پر ایم کیو ایم حقیقی جماعت اسلامی کے سامنے کھڑا ہونے کی کوششیں ترک کر کے سب کے سب کراچی کے حقوق کے لیے یک جان ہو کر جماعت اسلامی کے دھرنے میں شریک ہو جائیں تاکہ پیپلز پارٹی کے حکومت پر دبائو بڑھے اور کالا قانون واپس لینے پر مجبور ہو جائے یہی جمہوری طریقہ ہے۔ اس پر عمل کر کے جدید جمہوری حکومتیں قائم رہ سکتیں ہیں۔