صوفی ٹورازم اور قائد کا تصور

Tourism

Tourism

تحریر: روہیل اکبر

پاکستان ٹورازم ڈیولپمنٹ کارپوریشن (پی ٹی ڈی سی) اور ٹوارزم ڈیولپمنٹ کارپوریشن آف پنجاب (ٹی ڈی سی پی) ایسے ادارے ہیں جنکا کام سیاحت کو فروغ دینا ہے وزیر اعظم عمران خان چاہتے ہیں کہ ملک میں سیاحت کا شعبہ پروان چڑھے اسی مقصد کے لیے پنجاب کے وزیر اعلی سردار عثمان بزدار نے صوفی ٹور ازم کو پروان چڑھانے کا منصوبہ بنایا ہے عوام کو صوفیائے کرام کے مزارات پر لے جایا جائیگاتاکہ ملک میں مذہبی سیاحت فروغ پاسکے اور یہ پنجاب حکومت کا ایک روشن کارنامہ ہوگا جسکے زریعے ہم صوفی ازم کی گہرائی سے واقف ہونگے صوفی ازم ہے کیا اور ہم اس سے دور کیسے ہوگئے برصغیر پاک وہند میں اسلام بلاشبہ صوفی ازم سے ہی پھیلا تصوف، صوفیانہ اسلامی عقیدہ اور عمل جس میں مسلمان اللہ تعالی سے براہ راست محبت اور علم کی حقیقت کو تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں صوفیاء کو عام طور پر فقیر اور درویش کے نام سے بھی جانا جاتا ہے اسلامی تصوف میں ترقی کے کئی مراحل تھے جن میں ابتدائی سنت، الہی محبت کے کلاسیکی تصوف کی ترقی اور تصوف کے برادرانہ احکامات کا عروج اور پھیلاؤ شامل ہیں۔

تصوف کا پہلا مرحلہ متقی حلقوں میں ابتدائی اموی دور (661-749) کی دنیا پرستی کے خلاف ردعمل کے طور پر ظاہر ہوا قیامت کے بارے میں قرآن مجیدکے الفاظ پر مسلسل غور کرنے والے سنیاسیوں کو لوگ ہمیشہ رونے والے اوردکھوں کی جھونپڑی سمجھتے تھے محبت کے عنصر کو جس نے تصوف میں بدل دیا وہ حضرت رابیعہ بصری سے منسوب کیا جاتا ہے بصرہ کی یہ خاتون جس نے سب سے پہلے اللہ کی محبت کا صوفی آئیڈیل وضع کیا جسے کوئی دلچسپی نہیں تھی نہ جنت کے لیے اور نہ جہنم کے خوف سے بچنے کے لیے یہیں سے صوفیانہ رجحانات اسلامی دنیا میں ہر جگہ پروان چڑھے جزوی طور پر عیسائیوں کے ساتھ خیالات کے تبادلے کے ذریعے ابتدائی نسلوں میں متعدد صوفیاء نے اپنی کوششیں توکل خدا پر کامل بھروسے پر مرکوز کیں جو تصوف کا مرکزی تصور بن گیا جسے بغداد کے جنید بغدادی نے اپنی وفات 910 سے قبل مکمل کیا جس کے بعد عقیدہ اور جواز کی ترسیل کی تمام زنجیریں واپس چلی گئیں۔

صوفیاء نے اپنی لغت کو قرآن سے اخذ کیا کہ اللہ تعالی ان سے محبت کرتا ہے اور وہ اس سے محبت کرتے ہیں جو محبت تصوف کی بنیاد بن گیا توکل (خدا پر توکل) بعض اوقات اس حد تک رائج ہو جاتا تھا کہ کل کی ہر سوچ کو بے دین سمجھا جاتا تھا تھوڑی سی نیند، تھوڑی سی باتیں، تھوڑی سی خوراک بنیاد تھیں روزہ روحانی زندگی کی سب سے اہم تیاریوں میں سے ایک بن گیا صوفیاء کی مرکزی فکر جیسا کہ ہر مسلمان کی توحید تھی جو اس بات کی گواہی دیتی ہے کہ ”اللہ ا کے سوا کوئی معبود نہیں“ ہر فرد کے وجود میں اس سچائی کا ادراک ہونا ضروری تھا اور صوفی کسی پر اپنی مرضی مسلط نہیں کرتے تھے وہ پیار، محبت اور اپنے حسن اخلاق سے غیر مسلموں کو دائرہ اسلام میں لاتے تھے ان کے ہاتھوں جو مسلمان ہوئے وہ پکے اور سچے مسلمان بنے صوفی ازم ہمیں ایک اسلامی فلاحی ریاست کا تصور بھی پیش کرتا ہے جبکہ علامہ اقبال اور قائداعظم کے وژن کا مقصدبھی پاکستان کو جدید فلاحی اسلامی ریاست بنانا تھا قائداعظم ماڈرن سوچ اور لبرل شخصیت تھے انہوں نے اپنی تقاریر میں واضح کردیا تھا کہ وہ پاکستان کو مذہبی ریاست نہیں بنانا چاہتے تھے۔

انکا کہنا تھا کہ پاکستان بن گیا ہے اب ہندوؤں کو اپنے مندروں، عیسائیوں کو اپنے گرجا گھروں میں جانے کی مکمل آزادی ہے وہ اپنے عقیدے کے مطابق عبادت کر سکتے ہیں قائداعظم کے برعکس ابو کلام آزاد اور مولانا مودودی دینی عالم سکالر تھے ابو کلام آزاد نے قرآن کی تفاسیر لکھیں اور احادیث نبوی لکھیں اسی طرح مولانا مودودی بلند پایہ اسلامی مفکر تھے جے یو آئی کے اکابرین بھی بلند پایہ علماء تھے اور ان کا اپنا حلقہ اثر تھا وہ بھی ریاست کو حدوں میں رکھنے کے قائل نہیں تھے جبکہ علامہ اقبال اور قائداعظم ایک جدید اسلامی فلاحی مملکت کا تصور رکھتے تھے اور اسی کیلئے وہ کوشاں رہے قائداعظم محمد علی جناح اور علامہ محمد اقبال کی سوچ تھی کہ پاکستان کو اقلیتوں کیلئے ایک محفوظ ملک بنایا جائے جہاں انہیں اپنے عقیدے کے مطابق زندگی گزارنے کا حق حاصل ہو جبکہ دوسری جانب انڈیا میں انتہا پسند ہندوؤں کے ہاتھوں کسی بھی مذہب کے لوگ محفوظ نہیں ہیں۔

بلخصوص بے گناہ اور معصوم مسلمانوں کو قتل کرنا ان دہشت گردوں کا معمول بن چکا ہے ہم ان بیرونی دہشت گردوں کا تب ہی مقابلہ کرسکتے ہیں جب ہم صوفی ازم پر چلتے ہوئے اپنی مساجد میں کچھ تبدیلیاں کرلیں مساجد کو صرف نماز پڑھنے کی جگہ ہی نہ بنائیں بلکہ اسلامی کمیونٹی سنٹر کی طرز پر وہاں غریبوں کے کھانے کا انتظام ہو ڈپریشن میں الجھے لوگوں کی کاؤنسلنگ ہوان کے خاندانی جھگڑوں کو سلجھانے کا انتظام ہومدد مانگنے والوں کی مناسب تحقیق کے بعداجتماعی و انفرادی طور پر مدد کی جا سکے اپنے گھروں کے فالتو سامان کو نادار افراد کیلئے عطیہ کرنے کی غرض سے مساجد کا ایک حصہ مخصوص ہو آپس میں رشتے ناطے کرنے کیلئے ضروری واقفیت کا موقع ملے نکاح کا بندوبست سادگی کیساتھ مساجد میں کیے جانے کو ترجیح دی جائے۔

قدرتی آفات سے ہونے والے نقصانات کے ازالے کیلئے اجتماعی کوششوں کا آغاز مساجد سے ہو کیونکہ صدقات و خیرات کرنے میں ہم مسلمانوں کا کوئی ثانی نہیں بڑی جامعہ مساجدسے ملحق مدارس میں دینی تعلیم کیساتھ دنیاوی تعلیم کا بھی اہتمام ہو ہماری مساجد میں ایک شاندار لائبریری ہو جہاں پر مکمل اسلامی و عصری کتابیں مطالعہ کے لئے دستیاب ہوں اور یہ تب ہی ممکن ہوسکے گا جب ہم صوفی ازم سے واقفیت حاصل کرینگے اور اسکے لیے وزیر اعلی پنجاب سردار عثمان بزدار کا صوفی ٹورازم شروع کرنے کا پروگرام بہت ہی خوبصورت اور اعلی ہے جس سے ہمیں اپنی ترجیحات بدلنے کاموقعہ ملے گا ہم میں صلاحیت مند افراد کی کمی نہیں پڑھے لکھے سمجھدار لوگوں کو اس کارخیر کیلئے اہم ذمہ داریاں دی جائیں تاکہ ہمارا آنے والا کل روشن ہو خدارا اپنے اندر عوامی فلاح وبہبود کی سوچ وا لے لوگ پیدا کریں ان میں سے کوئی بھی تجویز نئی نہیں ہے بلکہ ان تمام کاموں کی نظیر 1400 سال پہلے دور نبوی میں موجود تھی جیسے ہی ہم نے ان شاندار روایات کو چھوڑا ہم بربادی کی طرف بڑھتے چلے گئے اور چلے ہی جا رہے ہیں۔

Rohail Akbar

Rohail Akbar

تحریر: روہیل اکبر