خرطوم (اصل میڈیا ڈیسک) سوڈان کے دارالحکومت خرطوم ، اس کے جڑواں شہروں اُم درمان اور بحری میں ہزاروں افراد فوج کے اقتدار پر قبضے کے خلاف احتجاجی ریلیاں نکال رہے ہیں لیکن جمعرات کو ان مظاہروں سے قبل ٹیلی مواصلاتی نظام درہم برہم کردیا گیا۔
سوڈانی سکیورٹی فورسز نے مظاہروں سے قبل خرطوم اور اُم درمان کے درمیان دریائے نیل پر واقع بعض پل بھی بند کر دیے تھے تاکہ مظاہرین کی آزادانہ آمد ورفت کو روکا جا سکے۔
مظاہرین کا کہنا تھا کہ وہ خرطوم کے صدارتی محل تک پہنچنے کی کوشش کریں گے۔وہ فوج پر دباؤ برقرار رکھنے کی کوشش کررہے ہیں اور ملک میں سول حکومت کو اقتدار کی منتقلی چاہتے ہیں۔
بحری شہرمیں احتجاجی مظاہروں کا اہتمام کرنے والی مزاحمتی کمیٹیوں کے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ ’’ہم ایک بار پھرسڑکوں پر قبضہ کریں گے، خرطوم میں صدارتی محل کی طرف بڑھیں گے،فوجی حکمرانی کو مسترد کریں گے اور پرامن رہنے کے اصول کی پاسداری کریں گے‘‘۔
احتجاجی تحریک سے وابستہ طبی عملہ کے مطابق فوجی بغاوت کے بعد مظاہرین کے خلاف کریک ڈاؤن میں57 افراد ہلاک اور متعدد زخمی ہو چکے ہیں۔
رائٹرز کے صحافیوں اور انٹرنیٹ کی نگرانی کرنے والی تنظیم نیٹ بلاکس نے بتایا کہ صبح سے ہی موبائل فون پر کالز اور انٹرنیٹ خدمات میں خلل پڑا ہے۔
یہ مظاہرے وزیراعظم عبداللہ حمدوک کے عہدے سے مستعفی ہونے کے چاردن بعد ہورہے ہیں۔ان کے استعفے سے سوڈان کا سیاسی مستقبل غیر یقینی صورت حال سے دوچار ہوگیا ہے۔
سوڈان میں جنرل عبدالفتاح البرہان کے زیرقیادت فوج کے 25 اکتوبر کواقتدار پرمکمل قبضے اوروزیراعظم کو معزول کرنے کے بعد حراست میں لینے کے خلاف احتجاجی مظاہرے جاری ہیں۔
تاہم فوج نے وزیراعظم حمدوک کے ساتھ21 نومبر کو ایک معاہدہ طے کیا تھا اور انھیں ان کے عہدے پر بحال کر دیا تھا لیکن مظاہرین اس اقدام سے مطمئن نہیں ہوئے،وہ ملک میں مکمل جمہوریت کی طرف پیش رفت کا مطالبہ کررہے ہیں اور اس ضمن میں فوجی حکمرانوں کے وعدوں پراعتمادکرنے کو تیارنہیں۔
وزیراعظم اور فوج کے درمیان طے شدہ معاہدے میں ٹیکنوکریٹس پر مشتمل ایک آزاد کابینہ کی تشکیل پرزوردیا گیا تھا۔تاہم اس کو جمہوریت نواز تحریک نے مسترد کردیا تھا۔اس کا اصرار ہے کہ اقتدارمکمل طور پرسویلین حکومت کے حوالے کیا جائے اور جمہوریت کی جانب منتقلی کے عمل کی وہی قیادت کرے۔احتجاجی تحریک کے دباؤ کے بعد وزیراعظم عبداللہ حمدوک اپنے عہدے سے دوبارہ اسی ہفتے مستعفی ہوگئے تھے۔