ماسکو (اصل میڈیا ڈیسک) روسی صدر پوٹن کے ساتھ مخلتف تنازعات پر بات چیت کرنا جرمنی کے نئے چانسلر شولس اور وزیر خارجہ بیئربوک کے لیے ایک بہت بڑا امتحان ہے۔ کیونکہ برلن کی ماسکو سے منسلک خارجہ پالیسی پر دونوں کے مؤقف میں واضح اختلاف پایا جاتا ہے۔
جرمنی کی نئی سہ جماعتی مخلوط حکومت کے درمیان طے کردہ معاہدے میں ایک ایسا جملہ شامل ہے جس کے نتیجے میں تناؤ اور اختلافات جنم لے سکتے ہیں۔ معاہدے میں لکھا ہے، ”ہمیں ایک پرعزم اور خاطر خواہ خارجہ، سلامتی، ترقی اور انسانی حقوق کی پالیسی کی ضرورت ہے جو مربوط اور ہم آہنگ ہو۔‘‘
اس کا مطلب ہے کہ سوشل ڈیموکریٹس (ایس پی ڈی)، گرین پارٹی، اور فری ڈیموکریٹس (ایف ڈی پی) جیوپولیٹیکس کے معاملات پر متحد ہیں اور کوئی بھی جماعت طے شدہ معاملات کی خلاف ورزی نہیں کرے گی۔
برلن میں سیاسی تجزیہ کار سمجھتے ہیں کہ مخلوط حکومت کے قیام سے قبل ہی یہ بات عام تھی کہ خارجہ پالیسی کے حوالے سے چانسلر شولس (ایس پی ڈی) اور وزیر خارجہ بیئربوک (گرین) کے درمیان واضح اختلافات پائے جاتے ہیں، خاص طور پر ماسکو کے ساتھ تعلقات کے تناظر میں۔
نارتھ اسٹریم 2 گیس پائپ لائن سمندر میں روس سے جرمنی تک بچھائی جا رہی ہے۔ امریکی مخالفت کے باوجود اس منصوبے کا کافی کام مکمل ہو چکا ہے۔
انتخابی مہم کے دوران چانسلر کی امیدوار کے طور پر بیئربوک نے روس اور جرمنی کے مابین گیس پائپ لائن کے متنازعہ منصوبے ‘نارتھ اسٹریم ٹو‘ کی برملا مخالفت کی تھی۔ ان کا مؤقف تھا کہ اس منصوبے سے جرمنی کو توانائی کے حصول کے لیے روسی صدر ولادیمیر پوٹن پر انحصار کرنا پڑے گا۔ اس دوران شولس نے کہا تھا کہ یہ پائپ لائن ایک ‘کاروباری منصوبے‘ سے زیادہ کچھ بھی نہیں ہے۔
بالآخر وزیر خارجہ بیئربوک سے مخلوط حکومت کے ساتھ مل کر اس منصوبے کی حمایت کی توقع کی جا رہی ہے۔
آسٹریا کے نائب چانسلر ہائنز کرسٹیان سٹراخا کئی مرتبہ یورپی یونین پر زور دے چکے ہیں کہ روس پر عائد پابندیاں ختم کی جائیں۔ عوامیت پسند پارٹی FPÖ کے رہنما سٹراخا مشرقی یورپ میں نیٹو کے آپریشنز میں وسعت کے بھی خلاف ہیں۔ 2005ء میں انہوں نے یہاں تک کہہ دیا کہ’ حالیہ عشروں میں روس نے جارحیت نہیں دکھائی‘۔ ممکنہ روسی عسکری کارروائی کے پیش نظر نیٹو نے روس کے ساتھ متصل یورپی سرحدوں پر اپنی موجودگی بڑھائی ہے۔
تاہم وفاقی چانسلر اور وزیر خارجہ کے درمیان ممکنہ تصادم کو اس صورت میں بھی بچایا جاسکتا ہے اگر جرمنی کی فیڈرل نیٹ ورک ایجنسی، جو پائپ لائن کو چلانے کا حتمی فیصلہ کرنے کی ذمہ دار ہے، یہ فیصلہ کرے کہ تکنیکی اور قانونی وجوہات کی بنا پر اسے کمیشن نہیں کیا جانا چاہیے، یعنی فعال نہیں کیا جانا چاہیے۔ اس بات کا فیصلہ آئندہ چھ ماہ میں متوقع ہے۔
واشنگٹن کے سرکاری دورے کے دوران جرمن وزیر خارجہ انالینا بیئربوک نے اپنے ہم منصب انٹونی بلنکن سے ملاقات کے بعد یقین دہانی کرائی کہ اگر روس توانائی کو ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کرے گا یا پھر اشتعال انگیز کارروائیاں کرے گا تو برلن کی نئی حکومت یورپی شراکت داروں کے ساتھ مل کر ماسکو کے خلاف مؤثر اقدام کرے گی۔
بیئربوک کے بقول، ”ہم یوکرائن کو غیر مستحکم کرنے کی کوششوں، مشرقی یوکرائن میں تشدد اور کریمیا کے الحاق کے فوری خاتمے کا مطالبہ کرتے ہیں، جو بین الاقوامی قانون کے مطابق غیر قانونی عمل تھا۔‘‘ یہ صدر پوٹن کے لیے ایک سخت انتباہ تھا اور چانسلر شولس بھی اس سے اختلاف نہیں کر سکے۔
اگر جرمنی روسی صدر کے ساتھ معاملات میں اپنی پوزیشن کمزور نہیں کرنا چاہتا، تو اسے چانسلر اور وزیر خارجہ کے درمیان باہمی ہم آہنگی پر مبنی حکمت عملی تیار اور نافذ کرنا ہو گی۔
تاہم سیاسی ماہرین کو اس طرح کی متفقہ حکمت عملی کے امکانات بہت کم دکھائی دے رہے ہیں۔ جرمن اخبار بِلڈ سائٹنگ کی ایک رپورٹ کے مطابق چانسلر شولس چاہتے ہیں کہ ماسکو کے ساتھ تعلقات کا فیصلہ اعلیٰ ترین سطح پر ہی کیا جانا چاہیے، یعنی وفاقی چانسلر کے دفتر میں۔
اپنے اراکین کی اوسط عمر کے لحاظ سے سات سو چھتیس رکنی نئی بنڈس ٹاگ سابقہ پارلیمان سے واضح طور پر زیادہ نوجوان ہے۔ ان میں سب سے کم عمر رکن تیئیس سالہ ایمیلیا فیسٹر ہے۔ سینتالیس اراکین کی عمریں تیس برس سے کم ہیں۔
دوسری جانب برلن میں رواں ماہ کے دوران روسی صدر پوٹن اور جرمن چانسلر شولس کے درمیان ممکنہ ملاقات کی چہ مگوئیاں کی جاری ہیں اور پس پردہ سیاسی حلقوں میں ماسکو اور برلن کے تعلقات کو ‘ری سیٹ‘ کرنے کی باتیں بھی کی جارہی ہیں۔
اگر چانسلر شولس ماسکو کے ساتھ تعلقات کے حوالے سے حکمت عملی کو محض اپنے ہاتھوں میں لیتے ہیں تو یہ جرمن آئین کی خلاف ورزی نہیں ہو گی۔ کیونکہ، جرمن آئین کے آرٹیکل 65 کے مطابق، ”پالیسی کے عام ضوابط کا تعین وفاقی چانسلر کریں گے اور وہ ہی اس کے ذمہ دار ہوں گے۔ ان حدود کے اندر رہتے ہوئے، تمام وفاقی وزیر اپنے اپنے اداروں کے معاملات آزادی اور اپنی ذمہ داری کے تحت سنبھالیں گے۔‘‘
جرمن چانسلر شولس اپنے ایک انٹرویو میں اس بات کا اظہار کرچکے ہیں کہ وہ روس اور دیگر ممالک کو اس بات پر قائل کرنے کے لیے سخت محنت کریں گے کہ یورپی انضمام ایک ایسی طاقت ہے جسے تسلیم کیا جائے۔
گزشتہ برس اقتدار سنبھالنے والی سہ فریقی جماعتوں کے حکومتی اتحاد کے معاہدے میں ٹھوس اور مستحکم تعلقات کی اہمیت کو تسلیم کرنے اور اس طرح کی شراکت داری کو جاری رکھنے پر اتفاق کیا گیا تھا۔ ‘ہم تعمیراتی مذاکرات کے خواہاں ہیں‘: بہت جلد اس عزم کی آزمائش کا وقت سامنے آ سکتا ہے۔