ہمارے ہاں چور بازاری تو عام سی بات ہے ہم گاہکوں کے کپڑے بھی اتار نے کی کوشش کرتے ہیں خو ش قسمتی سے اگر کوئی بچ جائے تو یہ اسکا نصیب آپ کسی رہڑی یا تھلے والے سے کوئی چیز پھل وغیرہ خریدتے ہیں تو اس بات کا بخوبی اندازہ بھی ہوگا کہ گھر جاکر جب تھیلا کھولتے ہیں تو اس میں سے گلا سڑا پھل بھی نکل آتا ہے اس سے تھوڑا سا اوپر چلیں تو پیٹرول پمپ والے اپنا میٹر اپنی مرضی سے چلاتے ہیں آپ رکشہ میں بیٹھیں تو کرایہ آپ کی سوچ سے ڈب مانگیں گے بس میں سوار ہونے لگیں گے تو بس کنڈیکٹر اور ہیلپر آپ کے کپڑے بھی پھاڑ دیگا اگر آپ اسکی بس میں نہ بیٹھیں گے کھانے والے ہوٹل پر چلے جائیں وہاں آپ کو چربی والے گھی سے تیار کیا ہوا سالن ملے گا اور کیمیکل والی پتی سے تیار ہونے والی مزیدار چائے پیش کی جائیگی۔
اگر کوئی تہوار آگیا تو پھر اشیاء کی قیمتیں آسمان سے باتیں کرنا شروع کردیگی دوکانداروں کو اگر علم ہوجائے کہ فلاں چیز کی قلت پیدا ہوگئی ہے تو وہ اسے چھپانے کا کام شروع کردیں گے اور پھر اپنی مرضی کی قیمت وصول کرینگے آپ موٹر وے پر سفر کررہے ہیں تو وہاں پر بھی قیمتیں وہ اپنی مرضی سے وصول کرتے ہیں ابھی ابھی کچھ دن قبل سانحہ مری بھی ہوگذرا ہے وہاں کے ہوٹلوں کی لوٹ مار کے قصے بھی سنے ہونگے بہت سے دوست خود یہ سارے حالات بھگت کر آئے ہیں اور الزام حکومت پر آتا ہے ہم تو وہ لوگ ہیں جو مرنے والوں کے ہاتھ اور کان کاٹ کر انکے زیور چوری کرلیتے ہیں ساہیوال کے قریب اور سندھ میں ہونے والا ٹرین حادثہ بھی یاد ہوگا جہاں لٹیروں نے ہلاک ہونے والی خواتین کے کنگن اور بالیاں اتارنے کے لیے انکے جسم کاٹ ڈالے تھے حکومت چند ایک افراد کو تو سیدھا کرسکتی ہے جہاں پر آوے کا آوا ہی بگڑا ہو وہاں پر گرفتاریاں اور پکڑ دھکڑ بھی کوئی معنی نہیں رکھتی کیونکہ ان چوروں کو بچانے والے بڑے ڈاکو میدان میں نکل آتے ہیں ناجائز منافع خور اور ذخیرہ اندوز ہر وقت موقع کی تلاش میں رہتے ہیں جہاں انہیں موقع ملتا ہے۔
واردات ڈالنے میں وقت نہیں لگاتے آ پ رمضان المبارک کے دنوں میں اشیائے خردونوش کی قیمتیں چیک کریں اور اب نارمل حالات میں دیکھ لیں ہر مسلمان کھجور سے روزہ کھولنا سنت اور ثواب سمجھتا ہے مگر منافع خور ان مبارک ایام میں کھجور کی قیمتیں بھی کئی گنا بڑھا دیتے ہیں ان منافع خوروں کو قابو کرنے کے لیے پنجاب حکومت نے ایک آرڈیننس پاس کیا ہے امید ہے کہ اس سے پنجاب میں اشیاء خوردونوش پر ناجائز منافع خوری کرنیوالوں کیخلاف شکنجہ مزید سخت ہو گا اور اس سلسلہ میں گورنر چودھری سرور نے منافع خوروں کیخلاف ایکشن کیلئے ترامیمی آرڈننس پر دستخط کر دیئے جسکے مطابق وزیر اعلی پنجاب سردار عثمان بزدار کی زیر نگرانی 12 رکنی پر ائس کنٹرول کونسل تشکیل دی جائے گی پرائس کنٹرول کونسل میں 4 صوبائی وزراء، چیف سیکرٹری اور دیگر افسران بھی شامل ہونگے وزیر برائے انڈسٹری، وزیر بر ائے لائیوسٹاک، وزیر خوراک اور ایگری کلچر کونسل کے رکن ہوں گے پرائس کنٹرول کونسل سپیشل مجسٹریٹ اور دیگر حکومتی افسران کی کارکردگی کو بھی مانٹیر کر یگی پاس ہونے والے اس نئے ایکٹ کے تحت ذخیرہ اندوزوں کو ایک ماہ سے ایک سال تک سزا، ایک ہزار سے 1 لاکھ روپے تک جر مانہ ہوگا۔ دوبارہ منافع خوری کے جرم پر کم از کم ایک سال سز اور کم ازکم 1 لاکھ روپے جر مانہ کیا جائے گا۔
ناجائز منافع خوری اور ذخیرہ اندوزی کر نیوالے عناصر کسی رعایت کے مستحق نہیں کیونکہ یہ افراد نہ صرف معصوم بچوں کے دودھ میں ملاوٹ کرتے ہیں بلکہ کیمیکل سے تیار کیا ہوا دودھ دھڑلے سے فروخت کرتے ہیں اس وقت لاہور میں دودھ فروخت کرنے والی سینکڑوں دوکانیں ہیں جن میں سے اکثریت کے پاس کوئی فارم ہاؤس ہے اور نہ ہی کوئی بھینس اسکے باوجود 24گھنٹے دودھ دستیاب ہوتا ہے مجھے یاد ہے شروع شروع میں جب فوڈ اتھارٹی کی بہت ہی فعال عائشہ ممتاز نے ان نوس بازوں کو پکڑنا شروع کیا تو ایسا محسوس ہوتا تھا کہ ہم ہر چیز ہی دو نمبر نہیں بلکہ اس سے اگلے نمبروں والی استعمال کرتے رہے یہاں تک کہ بکرے کے گوشت کی بجائے کتے اور گدھے بھی کھلائے جاتے رہے اور ہر روز منوں کے حساب سے دودھ ضائع کیا جاتا تھا جو کھاد،صرف اور آئل سے تیار کیا جاتا تھا چھوٹے چھوٹے ہوٹلوں والے تو ہمیں نہ جانے کیا کیا کھلاتے رہے بڑے ہوٹل بھی عائشہ ممتاز کی نظروں سے نہ بچ پائے گندگی اور صفائی نہ ہونے سے مال روڈ پر واقع ہوٹلوں کے کچن بھی سیل ہوئے بلکہ جن بیکریوں سے ہم صبح ناشتے کا سامان لیکر جاتے ہیں جب انکا کچہ چٹھا کھلا تو معلوم ہوا سبھی گندے انڈے یہاں تک کہ اندوں میں پیدا ہونے والے بچے بھی انہی بیکری کی اشیاء میں استعمال ہوتے رہے۔
بلکہ آپ کو یاد ہوگا ہے پی آئی سی لاہور میں جعلی ادویات سے کئی افراد موت کے منہ میں چلے گئے تھے ہم انسانی زندگیوں کے ساتھ کھیلنے سے بھی باز نہیں آتے میں سمجھتا ہوں کہ ناجائز منافع خوروں اور ذخیرہ اندوزوں کے خلاف جتنا بھی گھیرا تنگ کیا جائے کم ہے یہ نہ صرف ہماری نوجوان نسل اور معصوم بچوں کی زندگیوں سے کھیلتے ہیں بلکہ انہیں بزرگوں کے بڑھاپے کے ساتھ بھی کھیلتے ہیں پیسے کمانے کی ہوس میں ہم ہر وہ چیز بیچ رہے ہیں جو مضر صحت ہونے کے ساتھ ساتھ انسانی زندگی کو بھی مفلوج اور اپاہج بناسکتی ہے وزیر اعلی پنجاب سردار عثمان بزدار کی نگرانی میں قائم ہونے والی اس کمیٹی میں مزید افراد کو بھی شامل ہونا چاہیے تاکہ اس کار خیر میں سبھی اپنا اپنا حصہ ضرور ڈالیں یہ ہمارے مستقبل کا سوال ہے جو تب ہی بچ پائے گا اگر ہم نے اپنا آج درست کرلیا اس لیے آج کو محفوظ بنانے کے لیے کچھ تلخ فیصلے کرنا بہت ضروری ہیں کیونکہ منافع خور دشمن ہے ہمارا۔