ایران (اصل میڈیا ڈیسک) ایران کے ساتھ عالمی طاقتوں کا مذاکراتی عمل ایک مشکل دور سے نکل کر پرسکون ماحول میں داخل ہو گیا ہے۔ نئے سال میں مذاکرتی عمل کے حوالے سے مثبت اشارے سامنے آئے ہیں اور یورپی یونین کے مطابق ڈیل طے ہونے کا امکان موجود ہے۔
ایران کے ساتھ جوہری مذاکرات کا موجودہ دور کئی ماہ کی تعطلی کے بعد گزشتہ برس نومبر میں شروع ہوا تھا۔ ابتدا میں بات چیت کے اس دور کو مشکل قرار دیا گیا تھا تاہم صبر آزما مراحل کے بعد اب یہ بین الاقوامی مذاکراتی عمل ایک مناسب اور سازگار ماحول میں داخل ہو چکا ہے۔
اس نئی صورت حال کے بارے میں جمعہ چودہ جنوری کو یورپی یونین نے آئندہ کسی ممکنہ ڈیل کے طے ہونے کے اشارے بھی دیے۔
مناسب سمت میں جاری بات چیت یورپی یونین کے خارجہ امور کے سربراہ یوزیپ بوریل نے جمعہ چودہ جنوری کو کہا کہ کرسمس کے دنوں سے مذاکراتی عمل ایک مناسب دور میں داخل ہو چکا ہے اور اس سے پہلے تک بات چیت بہت مایوس کن تھی۔ انہوں نے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ معاہدے کا امکان موجود ہے اور یہ اگلے چند ہفتوں میں ممکن ہو سکتا ہے۔
بوریل نے ایرانی جوہری مذاکرات کے حوالے سے اظہارِ خیال فرانس کے جنوب مغربی شہر بریسٹ میں یورپی یونین کے وزرائے خارجہ کی دو روزہ میٹنگ کے بعد کیا۔ بریسٹ میں یوزیپ بوریل کی میڈیا گفتگو کے دوران فرانسیسی وزیر خارجہ ژاں ایو لدریاں بھی موجود تھے۔ انہوں نے اس موقع پر یورپی یونین کے خارجہ امور کے سربراہ کے موقف کی تائید کی۔ لدریاں نے یہ ضرور کہا کہ بات چیت کا عمل سست ہے مگر مثبت نتیجے کا امکان موجود ہے۔
یورپی یونین کی ششماہی صدارت کا حامل ملک اس وقت فرانس ہی ہے۔
ایرانی موقف ویانا میں جاری بین الاقوامی جوہری مذاکرات کے حوالے سے ایرانی وزارت خارجہ کے ترجمان بھی رواں ہفتے کے اوائل میں کہہ چکے ہیں کہ تمام فریق سن 2015 کی جوہری ڈیل کی بحالی کے حق میں ہیں اور اس مناسبت سے بہتر پیش رفت سامنے آئی ہے۔ موجودہ جوہری بات چیت انتیس نومبر سے آسٹریا کے شہر ویانا میں ہو رہی ہے۔
اس مناسبت سے روسی نائب وزیر خارجہ سیرگئی ریابکوف بھی واضح کر چکے ہیں کہ مذاکرتی عمل میں روانی آئی ہے اور مسائل کے حل کے امکانات روشن ہو گئے ہیں۔
متنازعہ معاملات اور ریلیف انٹرنیشنل کرائسس گروپ سے وابستہ ایرانی امور کے ماہر علی واعظ کا کہنا ہے کہ بات چیت کے متنازعہ امور میں پابندیوں کے خاتمے کے بعد ریلیف اور دوبارہ امریکی پابندیوں کے نفاذ کے حوالے سے ضمانتوں کی یقین دہانی نمایاں ہیں۔ علی واعظ کے مطابق ان کے علاوہ تاحال حل طلب مسائل میں سے ایک اہم معاملہ یہ بھی ہے کہ ایران اپنے جوہری پروگرام کا رخ واپسی کی طرف کس حد تک موڑے گا۔
انہوں نے یہ بھی واضح کیا کہ پابندیوں کے خاتمے کی صورت میں ایران کو دو حوالوں سے رعایت مل سکتی ہے اور اس میں ایک تیل کی برآمد اور دوسرے منجمد اثاثوں کی بحالی بشمول تیل کی مصنوعات سے حاصل ہونے والی آمدن کی واپسی ہے۔
ایرانی امور کے اس ماہر کا یہ بھی کہنا ہے کہ کوئی بھی امریکی حکومت ضمانت دینے سے قاصر ہے کہ بعد میں آنے والے دور کی کوئی امریکی انتظامیہ کیا فیصلہ کرے گی۔ ان کا یہ ضرور کہنا ہے کہ موجودہ بائیڈن انتظامیہ ایسا فیصلہ کر سکتی ہے جس کے تحت ایران کے ساتھ کاروبار کرنے والی کمپنیوں اور کاروباری اداروں کو امریکی جرمانوں یا تادیبی اقدامات سے چھوٹ دی جا سکے۔