پیونگ یانگ (اصل میڈیا ڈیسک) شمالی کوریا نے میزائل تجربات کا جو سلسلہ شروع کر رکھا ہے اس کے تحت گزشتہ دو ہفتوں کے دوران یہ چوتھا میزائل تجربہ تھا۔ چند روز قبل ہی امریکا نے جوہری ہتھیاروں سے لیس اس ملک کے خلاف نئی پابندیوں کا اعلان کیا تھا۔
جنوبی کوریا کی فوج کا کہنا ہے کہ شمالی کوریا نے 17 جنوری پیر کے روز اپنے مشرقی ساحل سے سمندر کی جانب دو نامعلوم ہتھیار فائر کیے ہیں۔ اس برس کے آغاز کے بعد سے پیونگ یانگ کی جانب سے ہتھیاروں کا یہ چوتھا ٹیسٹ ہے اور مبصرین کا خیال میں اس مختصر وقت میں اتنی تعداد میں تجربات ایک غیر معمولی بات ہے۔
جاپان کے کوسٹ گارڈ نے بھی پیر کے روز کم از کم ایک میزائل داغے جانے کی تصدیق کی ہے۔
نئے لانچ کے بارے میں ہمیں کیا معلوم ہے؟ جنوبی کوریا کے جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کا کہنا ہے کہ میزائل شمالی کوریا کے سونان ہوائی اڈے کے قریب ایک علاقے سے فائر کیے گئے۔ یہ بین الاقوامی ہوائی اڈہ ملک کے دارالحکومت کے لیے کام کرتا ہے۔ فوری طور پر یہ واضح نہیں ہو سکا ہے کہ پیر کے روز کس قسم کا میزائل داغا گیا۔
تاہم جنوبی کوریا اور جاپانی حکام کا کہنا ہے کہ انہوں نے پتہ لگایا ہے کہ شمالی کوریا کی جانب سے ممکنہ طور پر بیلیسٹک میزائل لانچ کیا گیا ہے۔
خبر رساں ایجنسی اے ایف پی نے جاپانی کوسٹ گارڈز کے ترجمان کے حوالے سے بتایا، ”بظاہر لگتا ہے کہ شمالی کوریا نے ممکنہ طور پر بیلیسٹک میزائل کا تجربہ کیا ہے۔”
جاپانی کوسٹ گارڈ نے اس سلسلے میں ایک بیان جاری کر کے جاپانی ساحل کے آس پاس سفر کرنے والے جہازوں پر زور دیا ہے کہ وہ سفر
کے دوران سمندر میں گرنے والی چیزوں سے ہوشیار رہیں۔ اس کا کہنا تھا کہ فوری طور پر سمندری جہازوں یا ہوائی جہازوں کو نقصان پہنچنے کی کوئی اطلاع نہیں ہے۔
اس سے قبل کون سے ہتھیار ٹیسٹ کیے گئے تھے؟ شمالی کوریا نے اسی ماہ تین دیگر ہتھیاروں کا بھی تجربہ کیا، جس میں سے دو ایسے ہائپرسونک میزائل بتائے جا رہے ہیں جو بہت ہی زیادہ تیز رفتار ہیں۔ پہلا تجربہ پانچ جنوری کو کیا گیا تھا پھر دوسرا ایک ہفتے کے اندر ہی گیارہ جنوری کو کیا گیا۔
گزشتہ جمعے کو شمال کوریا نے مختصر فاصلے تک مار کرنے والے دو بیلیسٹک میزائلوں کا تجربہ کیا تھا۔ اسی سلسلے میں پیر کو چوتھا تجربہ کیا گیا اور اسے بھی بیلیسٹک میزائل کا تجربہ کہا جا رہا ہے۔
بین الاقوامی رد عمل کیا رہا؟ گزشتہ ہفتے ہی، امریکا نے جوہری ہتھیاروں سے لیس ملک شمالی کوریا پر تازہ پابندیاں عائد کی تھیں جو صدر جو بائیڈن کی انتظامیہ کی جانب سے پہلی پابندیاں ہیں۔ واشنگٹن نے اقوام متحدہ سے شمالی کوریا کے متعدد افراد اور اداروں کو بھی بلیک لسٹ کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔
اس ماہ کے آغاز میں امریکا سمیت چھ ممالک نے ایک مشترکہ بیان جاری کیا تھا، جس میں شمالی کوریا پر زور دیا گیا تھا کہ وہ ”غیر مستحکم کرنے والے اقدامات” بند کر دے۔
شمالی کوریا کا موقف کیا ہے؟ شمالی کوریا نے امریکی پابندیوں کو اشتعال انگیز قرار دیا تھا اور اس کی وزارت خارجہ نے اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ اسے اپنے دفاع کا، ”قانونی حق حاصل ہے۔”
امریکا اور جنوبی کوریا کے درمیان فی الوقت مذاکرات تعطل کا شکار ہیں جبکہ بین الاقوامی صورت حال بھی غیر مستحکم ہے ایسے میں ان میزائل
تجربات کو صورت حال کی جوابی کارروائی کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔
سن 2019 میں میں کم جانگ ان اور اس وقت کے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے درمیان ناکام سربراہی ملاقات کے بعد سے واشنگٹن اور پیونگ یانگ کے درمیا ن بات چیت تعطل کا شکار ہے۔
موجودہ صدر جو بائیڈن کے ماتحت امریکی انتظامیہ بات چیت کے لیے آمادگی کا اظہار اس شرط پر کر چکی ہے کہ وہ ”جوہری تخفیف” کی کوشش کرے گی۔ تاہم پیونگ یانگ نے اس پیشکش کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ صرف اس صورت میں بات چیت کے لیے تیار ہے جب واشنگٹن اپنی پابندیوں کو ختم کرے اور خطے میں اپنی فوجی مشقوں جیسی ”مخالف پالیسیاں ” بند کر دے۔