واشنگٹن (اصل میڈیا ڈیسک) امریکی اخبار ’نیویارک ٹائمز‘ کے مطابق یوکرین کے بحران کو کم کرنے کے لیے گذشتہ ہفتے ماسکو اور واشنگٹن کے درمیان ہونے والی بات چیت ناکام ہونے کے بعد، وائٹ ہاؤس نے خیال ظاہر کیا ہے کہ روس حملے کا بہانہ بنانے کے لیے وہاں کی صورت حال کو خراب کرنے کا منصوبہ بنا رہا ہے۔
اگرچہ امریکی صدر جو بائیڈن اور نیٹو کی انتظامیہ اس بات کا تجزیہ کر رہی ہے کہ اگلے چند ماہ کیا ہوسکتا ہے۔ روسی صدر ولادی میر پوتین کے لیے ایک اور آپشن کے بارے میں گہری تشویش میں مبتلا ہیں۔ ان میں روسی صدر کا اپنی فوجوں اور ہتھیاروں کو یوکرین کی سرحدوں پر دھکیلنا اور دور رس اقدامات کرنا ہے۔
امریکی اخبار نیویارک ٹائمز کے مطابق پوتین مشرقی یورپ کو شامل کرنے کے لیے روس کے دائرہ اثر کو بڑھانا چاہتے ہیں اور اس میں دوبارہ توسیع نہ کرنے کا عہد کرنا چاہتے ہیں۔اخباری رپورٹ کے مطابق اگر پوتین اس مقصد تک پہنچنے میں ناکام رہتے ہیں جیسا کہ ان کے بعض معاونین نے مشورہ دیا تھا۔ تو روس کے سلامتی کے مفادات کوآگے بڑھائے گا جس کے نتائج یورپ اور امریکا سنجیدگی سے محسوس کریں گے۔ ایٹمی ہتھیاروں کی تنصیب کے اشارے
رپورٹس کے مطابق ایسے اشارے ملے تھے کہ روسی جوہری ہتھیاروں کو ایسے مقامات پر منتقل کیا جا سکتا ہے جو شاید امریکی ساحل سے زیادہ دور نہ ہوں۔ اس سے میزائل داغنے کے بعد وارننگ کے اوقات کو کم کر کے پانچ منٹ سے بھی کم کر دیا جائے گا، جس کی وجہ سے 1962 کے کیوبا کے میزائل بحران کی بازگشت اور تصادم کا آغاز ہوسکتا ہے۔
ماسکو کے ایک تجزیہ کار دمتری سوسلوف نے کہا کہ یوکرین پر روس کا فرضی حملہ امریکا کی سلامتی کو کمزور نہیں کرے گا۔ اس نے گذشتہ ماہ روسی قانون سازوں کو تصادم کے بارے میں بند کمرے میں پریزنٹیشن دی تھی۔ انہوں نے مزید کہا کہ روس کے اقدامات کی عمومی دلیل یہ ہے کہ امریکہ اور نیٹو کو بھاری قیمت ادا کرنی ہوگی۔