میں کو چہ تصوف سلسلہ چشتیہ کے عظیم ترین بزرگ خواجہ خواجگان عطائے رسول نائب رسول سلطان الہند کے لاڈلے خلیفہ مجاز حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکی کے خلیفہ حضرت مسعود الدین گنج شکر کے مزار پر انوار پر نذرانہ عقیدت گلاب کے پھولوں کے ہار اور ریشمی چادر ڈال کر بابِ جنت کا روح پرور نظارہ کر کے شہنشاہِ پاک پتن کے مزار کے مختلف حصوں سے برکتیں سمیٹنے کے بعد آخر کار باباجی کے چہیتے بھانجے اور روحانی وارث مخدوم حضرت علی احمد صابر کلیر کے حجرہ پر انوار کے سامنے عقیدت و احترام کا بت بنا کھڑا تھا حجرہ خاص کو دیکھ کر مجھے چند سال پہلے بھارت کا سفر اور پھر مخدوم صابر کلیر کے مزار مبارک پر حاضری کا دلنواز روح پرور وقت یاد آگیا گو لر کا وہ درخت بھی یاد آگیا جس کے نیچے میں کتنی دیر تک دامن مراد پھیلا ئے کھڑا رہا وہ درخت جس کے نیچے مخدوم صابر پیانے الٰہی رنگ و عشق میں ڈوب کر کتنے دن راتیں گزاردئیے خدا کے جلوئوں میں اِس قدر غرق کہ دنیا مافیا سے بے خبر ہو کر صرف اللہ کے جلوئوں کے سمندر میں ہی غرق رہتے ۔نور حق کی اِس قدر بر سات ہوئی کہ آپ پر عالم تحیر طاری ہو جاتا پھر آپ اِس مادی دنیا سے کٹ کر صرف اللہ کے ہی ہو جاتے ایک دفعہ آپ پر جلوہ حق کی مستی اِس قدر بڑھی کہ دن پر دن گزرتے چلے گئے لیکن آپ عالم تخیر سے اِس دنیا کی طرف متوجہ نہ ہوئے آپ کی اِس مدہوشی کی جب مرشد بابا گنج شکر کو اطلاع ملی تو بہت رنجیدہ ہوئے اور بولے میرے صابر کو عالم تحیر میں غرق زمانہ گزر گیا کوئی ہے جو اُس کو جا کر عالم ہو ش میں واپس لا ئے میں صابر کی حالت سے بہت اداس دل گرفتہ ہوں۔
مریدین سب سر جھکائے بیٹھے تھے کہ باباجی دو بار ہ بولے تم میں کوئی ایک بھی ایسا نہیں ہے حاضرین خاموش تھے لیکن حاضرین میں طالب حق حضرت شمس الدین ترک بھی موجود تھا جو تلاش حق کے لیے باباجی کی خدمت میں حاضر ہوا تھا باباجی اُس کو فرما چکے تھے کہ تمہارا روحانی فیض کلیر شریف میں ہے جب اُس نے باباجی کی آواز سنی تو احتراما کھڑا ہو گیا اور بولا شہنشا ہ یہ غلام حاضر ہے آپ حکم فرمائیں تو میں کلیر شریف جاتا ہوں باباجی شمس الدین کی بات سن کر تبسم آمیز لہجے میں بولے شمس الدین اگر تم میرے صابر کو عالم تحیر سے عالم ہوش میں لے آئے تو پھر تم جو انعام مانگو گے تم کو عطا کیا جائے گا۔
شمس الدین ترک نے باباجی کے ہاتھوں کا بوسہ دیا اور جذب و سکر کے سلطان صابر کلیر کے دیس کی طرف روانہ ہو گیا پھر طویل سفر کے بعد شہنشا ہ جذب و سکر مخدوم زادے کے علاقے میں داخل ہوا تو فضائوں میں جلال کا رنگ غالب دیکھا تو سمجھ گیا کہ مخدوم صابر کلیر کا علاقہ شروع ہو گیا لہذا قرآن مجید کی تلاوت بآواز شروع کر دی اور آگے بڑھنا شروع کردیا آپ کے بارے میں مشہور تھا کہ آپ لحن دوا دی کی مٹھاس حلاوت رکھتے تھے آپ جب بھی تلاوت قرآن فرماتے تھے تو سننے والوں پر وجد طاری ہو جاتا آپ کی زبان سے الہامی الفاظ اِس سرور سے نکلتے کے پتھر دل میں بھی گداز پیدا کر کے رقت طاری کر دیتے آپ تلاوت کر تے کرتے حضرت صابر کلیر کے پاس پہنچ گئے جہاں پر آپ گولر کے درخت کے نیچے عالم محویت میں دنیا سے بے خبر کھڑے تھے عشق الٰہی کا یہ عالم کے دنیا سے بے خبر کتنے دنوں سے کھڑے تھے اگر ہم بزم تصوف کا مطالعہ کر یں تو روز اول سے آج تک ہر دور میں ایک سے بڑھ کر ایک خدا کا عاشق اِس جہان رنگ و بو میں آیا اور اپنی خوشبو پھیلا کر چلا گیا کہ صدیوں بعد بھی متلاشیان ِ حق اپنی روحوں کو اُن کی عطر بیز خوشبو سے مہکاتے ہیں لیکن صابر کلیر عشق الٰہی میں باقی صوفیا پر بازی لے گئے۔
آپ کی پیدائش بابا فرید گنج شکر کی ہمشیرہ جمیلہ خاتون کے گھر ہوئی آپ کے والد کا نام سید عبدالرحیم تھا جن کا سلسہ نسب شاہ جیلانی غوث اعظم حضرت سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانی سے ملتا ہے آپ کی عمر مبارک پانچ سال تھی کہ والد کا سایہ سر سے اُٹھ گیا تو آپ کی والدہ ماجدہ ننھے صابر کو لے کر اپنے بھائی بابافرید کے پاس اجودھن پاک پتن آگئیں یہاں پر آکر مخدوم صابر نے ابتدائی تعلیم حضرت بابا فریدالدین مسعود گنج شکر کی نگرانی میں حاصل کی عربی فارسی فقہ کی تعلیم حاصل کی ابتدائی تعلیم کے بعد مخدوم زادے کو لنگر بانٹنے کی ڈیوٹی پر لگا دیا گیا آپ بچپن سے ہی کم گو خا موش رہنے والے تھے آپ خا موشی اور ذمہ داری سے ضرورت مندوں میں لنگر تقسیم کر تے درویشوں کا خاص خیال رکھتے دوسروں کا اِس قدر خیال رکھتے کہ اکثر ایک لقمہ بھی نہ بچتا لہذا آپ بھوکے رہتے لیکن دوسروں کو بھوکا نہ رہنے دیتے طویل عرصے کے بعد جب آپ کی والدہ آپ سے ملنے آئیں تو آپ ہڈیوں کا ڈھانچہ بن چکے تھے آپ کی کمزوری دیکھ کر والدہ رو پڑیں بھائی کے پاس شکایت لے کر گئیں تو بابافرید نے مجذوم صابر کو بلایا اور کہا فرزند تم کو لنگرکا انچارج بنایا ہے تم خود کھانا کیوں نہیں کھاتے تو نو جوان مخدوم بولا پیرو مرشد آپ نے لنگر کی تقسیم کا حکم دیا تھا کھانے کی اجازت تو نہیں دی تھی بابا فرید بھانجے کی بات سن کر بولے میرا علی احمد صابر ہے پھر اُس دن سے آپ صابر کے لقب سے مشہور ہو گئے۔
پھر چند سال بعد جب ماں کو بیٹے کی شادی کا خیال آیا تو بھائی کے پاس جا کر کہا میرا علی احمد جوان ہو گیا اُس کی شادی اپنی بیٹی سے کر دیں تو بابا فرید نے بہن کی درخواست کو قبول کیا اپنا داماد بنا لیا شادی کی رات علی احمد جب اپنے کمرے میں گئے تو بیگم کو عروسی لباس میں دیکھا تو والدہ سے پوچھا یہ کون ہے تو والدہ نے بتایا بیٹا یہ تمہاری دلہن ہے تو علی احمد صابر جذب کے عالم میں بولے اماں جان میں تو اللہ کا ہو چکا پھر درمیان میں کوئی دوسرا کس طرح آسکتا ہے جیسے ہی یہ الفاظ مخدوم کے منہ سے نکلے شعلہ لپکا اور شریک حیات کی جان نکل گئی پھر جب بعد میں مرشد کے حکم پر کلیر شریف گئے تو عالم تحیر میں مدہوش کھڑے ہو گئے تو مرشد نے شمس الدین ترک کو بھیجا شمس الدین کی تلاوت سے صابر کے جسم میں جنبش پیدا ہوئی اور بولے تلاوت جاری رکھو پھر عالم تحیر سے واپس آئے اور بولے تمہاری تلاوت سے میری روح تازہ ہو گئی آ پ تحیر سے واپس آگئے تو شمس الدین واپس بابافرید کے پاس آئے اور خوشخبری سنائی تو باباجی بولے بتائو کیا انعام چاہتے ہو تو شمس الدین بولے صابر کی غلامی اور دوبارہ صابر کلیر کے پاس چلے گئے آج میں صابر کلیر کے حجرہ مبارک کے سامنے آپ کے جذبہ عشق اور خدا کے عشق کو دیکھ کر جھوم رہا تھا کہ دربار پر آئی عورت اور اُس کی جوان بیٹی میری طرف بڑھیں میرے گھٹنوں کو ہاتھ لگایا اور کہا بابا جی سلام اور آگے بڑھ گئیں میں حیرت سے دیکھ رہا تھا کہ مُجھ جیسا گناہ گار سیاہ کار کوئلہ جب صابر کلیر اور بابا فرید جیسے عظیم بزرگوں کے مزارات پر آتا ہے تو یہ نیک لوگ کوئلوں کو ہیرے کی چمک دے کر واپس لوٹاتے ہیں یہ سلسلہ صدیوں سے جاری ہے اور روز قیامت تک اِسی طرح فیض کا سلسلہ جاری و ساری رہے گا۔
Prof Muhammad Abdullah Khan Bhatti
تحریر: پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی ای میل: help@noorekhuda.org فون: 03004352956 ویب سائٹ: www.noorekhuda.org فیس بک آفیشل پیج: www.fb.com/noorekhuda.org