امریکا (اصل میڈیا ڈیسک) امریکا نے اپنے ہزاروں فوجیوں کو مختصر نوٹس پر تعینات کرنے کے لیے الرٹ پر رکھا ہے، ادھر نیٹو نے بھی مشرقی یورپ میں اپنی موجودگی بڑھانے کا اعلان کیا ہے۔ لیکن روس نے ایسی فوجی سرگرمیوں کو سرخ لکیر بتاتے ہوئے متنبہ کیا ہے۔
مغربی دفاعی اتحاد نیٹو نے 24 جنوری پیر کے روز کہا کہ روس کے ساتھ کشیدگی کے ماحول میں وہ مشرقی یورپ کے لیے اضافی جنگی طیارے اور بحری جہاز بھیج رہا ہے۔ پینٹاگون کا کہنا ہے کہ یوکرائن پر بڑھتی کشیدگی کے ماحول میں اس نے بھی اپنے تقریبا ًساڑھے آٹھ ہزار فوجیوں کو مختصر نوٹس پر تعینات کرنے کے لیے ہائی الرٹ پر رکھا ہے۔
ادھر روسی صدر ولادیمیر پوٹن نے خبردار کیا ہے کہ ٹرانس اٹلانٹک فوجی اتحاد کی جانب سے خطے میں کوئی بھی فوجی سرگرمی ”سرخ لکیر” کو عبور کرنے کے مانند ہو گی۔ تازہ اقدامات یوکرائن اور روس کے بحران میں کشیدگی کو مزید ہوا دے سکتے ہیں۔
نیٹو کے سکریٹری جنرل جینس اسٹولٹن برگ نے کہا کہ امریکی صدر جو بائیڈن اور یورپی رہنما ماسکو کو متنبہ کرنے کے لیے مغربی فوجی اتحاد کے ساتھ اس بات پر متحد ہیں کہ اگر روس نے یوکرائن پر حملہ کیا تو اس کا سخت جواب دیا جائے گا۔
اسٹولٹن برگ نے صدر بائیڈن اور فرانس، جرمنی، اٹلی، پولینڈ، برطانیہ اور یورپی یونین کے دیگر رہنماؤں کے ساتھ آن لائن بات چیت کے بعد ٹوئٹر پر کہا، ”ہم اس بات سے متفق ہیں کہ روس کی جانب سے یوکرائن کے خلاف مزید کسی بھی طرح کی جارحیت کی سخت قیمت ادا کرنی پڑے گی۔”
اس اعلان سے قبل یورپی یونین کے وزرائے خارجہ برسلز میں جمع ہوئے تاکہ اس بحران کے حوالے سے ایک مربوط رد عمل پر تبادلہ خیال کیا جا سکے۔ امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن بھی اس میٹنگ میں آن لائن شریک ہوئے۔
دریں اثنا، امریکا، برطانیہ اور دیگر مغربی ممالک نے سیکورٹی خدشات کے پیش نظر یوکرائن میں اپنے سفارت خانے کے عملے کو واپس بلانے کا بھی اعلان کیا ہے۔
نیٹو نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ ڈنمارک بحیرہ بالٹک میں اپنے ایک بحری بیڑا روانہ کر رہا ہے اور اس کے ساتھ ہی چار ایف سولہ جنگی طیارے لیتھوانیا بھیج رہا ہے۔
برسلز میں ڈی ڈبلیو کے بیورو چیف الیگزینڈرا وون نہمین کے مطابق،ا سپین نیٹو کی بحری افواج میں شامل ہونے کے لیے اپنا ایک بحری جہاز بھیج رہا ہے جبکہ فرانس بھی رومانیہ میں اپنی افواج بھیجنے پر غور کر رہا ہے۔
نیدرلینڈ اور امریکا بھی خطے میں اپنی کوششوں کو بڑھا رہے ہیں۔ نیٹو کے ایک سفارت کار نے خبر رساں ادارے روئٹرز کو بتایا کہ امریکا آئندہ ہفتوں میں مغربی یورپ سے اپنے کچھ فوجیوں کو مشرقی یورپ میں منتقل کرنے پر غور کر رہا ہے۔
پینٹاگون نے پیر کے روز بتایا کہ فی الوقت 8,500 امریکی فوجیوں کو ”سخت الرٹ” پر رکھا گیا ہے۔
اسٹولٹن برگ کا کہنا تھا کہ وہ ”نیٹو میں اضافی افواج دینے والے اتحادیوں کا خیر مقدم کرتے ہیں۔ نیٹو، مشرقی حصے کو مزید تقویت فراہم کرنے کے ساتھ ہی، اپنے تمام اتحادیوں کے تحفظ اور ان کے دفاع کے لیے تمام ضروری اقدامات کرتا رہے گا۔” مغربی اتحاد کے ان اعلانات پر روس نے سخت ناراضی ظاہر کی ہے۔ ماسکو نے پہلے ہی نیٹو سے مشرقی یورپ میں اپنے فوجیوں کی تعداد میں کمی کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ یوکرائن کو نیٹو کی رکنیت نہ فراہم کی جائے۔
کریملن کے ترجمان دمتری پیسکوف نے پیر کے روز واشنگٹن اور نیٹو پر ”معلوماتی ہسٹیریا” اور ”ٹھوس اقدامات” کے ذریعے خطے میں کشیدگی بڑھانے کا الزام عائد کیا۔ پیسکوف نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ یوکرائن کے فوجیوں کی جانب سے روس نواز علیحدگی پسندوں پر حملہ کرنے کا امکان ”بہت زیادہ” ہیں۔
روسی خبر رساں ایجنسی آر آئی اے کی اطلاعات کے مطابق کم از کم 20 روسی بحری جہاز پیر کو بحیرہ بالٹک میں مشقوں کے لیے فعال کر دیے گئے ہیں۔ فی الوقت یوکرائن کی سرحد پر روس نے اپنے تقریباً ایک لاکھ فوجی تعینات کر رکھے ہیں اور مغربی ممالک کو خدشہ ہے کہ روس اپنے ہمسایہ ملک یوکرائن پر حملہ کر سکتا ہے۔ تاہم ماسکو اس سے انکار کرتا رہا ہے۔ ادھر برطانوی وزیر اعظم بورس جانسن نے پیر کے روز نشریاتی اداروں کو بتایا کہ یوکرائن پر روسی حملہ ایک ”تباہ کن قدم” ہو گا۔ انہوں نے اپنے بیان میں ایسے اقدام کو ”تکلیف دہ، پر تشدد اور خونی کاروبار” قرار دیا۔
جانسن کے ترجمان کا کہنا تھا کہ چونکہ نیٹو کے دیگر ممالک خطے میں اضافی افواج بھیج رہے ہیں اس لیے برطانوی فوجی دستوں کو یوکرائن بھیجنے کا کوئی منصوبہ نہیں ہے۔ اس سے قبل برطانوی وزیر خارجہ لز ٹرس نے ماسکو پر الزام لگایا تھا کہ وہ یوکرائن میں روس نواز کٹھ پتلی حکومت قائم کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔