بھارت دنیا کا سب سے بڑا جمہوری ملک ہے اور آبادی کے لحاظ کے یہ دنیا کا دوسرا بڑا ملک ہے۔ اگرپوری دنیا کی آبادی کو چھ حصوں میں تقسیم کیا جائے تو ان چھ حصوں میں ایک حصہ کی آبادی ملک ہندوستان کا ہوگا۔ دنیا کی کل آبادی کا 17.5فیصد کی آبادی ہندوستان میں پائی جاتی ہے۔آبادی کے اسی تناسب کو دیکھتے ہوئے اعداد وشمار کے ماہرین کا کہنا ہے کہ 2025 تک بھارت آبادی کے لحاظ سے دنیا کا سب سے بڑا ملک بن جائے گا۔
اسی طرح اس ملک میں مختلف مذاہب کا تنوع بھی پایا جاتاہے۔ اس ملک میں دنیا کے مختلف مذاہب کے پیروکار موجود ہیں ۔ یہاں مذہبی تنوع اور مذہبی اعتدال دونوں بذریعہ قانون قائم ہے۔ بھارت کے آئین میں واضح طور پر اس بات کی وضاحت کی گئی ہے کہ یہاں جملہ مذاہب کے تمام لوگوں کو بلا کسی امتیاز اور تفریق کے اپنے مذہب پر عمل کرنے کا پورا پوراحق حاصل ہے۔
انگریز تاجر بن کر اس ملک میں آئے اوراپنی تجارت کو مضبوط ومستحکم کرنے کے لیے ایسٹ انڈیا کمپنی کی بنیاد رکھی۔ دھیرے دھیرے ہندوستان پر قابض ہوگئے اور سفید وسیاہ کے مالک بن گئے ۔ 1858سے لیکر 1947تک انگریزوں نے اس ملک میں حکمرانی کی ۔اس دوران انہوں نے یہاں کے باشندوں پر بڑی ظلم وزیادتی کی۔ جب ظلم وزیادتی حد سے تجاوز کرگئی تو باشندگان ہند نے ملکی اتحاد کے ذریعہ انگریزوں کو اس ملک سے نکالنے کا عزم مصمم کرلیااور بالآخر ان کی محنت رنگ لائی اور 15؍ اگست 1947 کویہ ملک انگریزوں سے آزاد ہوا۔
کسی بھی ملک یا حکومت کو چلانے کے لیے نظم ونسق اورقوانین کی ضرورت پڑتی ہے تاکہ وہ ملک اسی دستور اورآئین کی روشنی میں اپنے فرائض انجام دے سکے۔ آئین کسی بھی مملکت کا وہ اساسی قانون ہوتاہے جس کے بنیادی نظریات اندرونی نظم ونسق کے اصول اور مختلف شعبوں کے درمیان ان کے فرائض اور اختیارات کے حدود متعین کرتاہے۔ لہذا آزادی کے بعد ہمارے ملک کو بھی ایسے آئین کی ضرورت پیش آئی جو شہریوں کے حقوق کی حفاظت کرسکے اور ملک میں جوبھی قانون نافذ ہو، وہ اسی آئین کے تحت ہو۔ اسی کے پیش نظر ڈاکٹر بھیم راؤ امیبڈکر کی نگرانی میں ایک سات رکنی کمیٹی تشکیل دی گئی ۔ اس سات رکنی آئین ساز کمیٹی نے 26نومبر1949کو دستور ہند مرتب کرکے حکومت کو سونپا پھر 26؍ جنوری 1950کو اس دستور کا نفاذ عمل میں آیا۔ اسی کے ساتھ حکومت ہند ایکٹ جو 1935سے نافذ تھا منسوخ ہوگیا اورہندوستان میں جمہوری طرز حکومت کاآغاز ہوا۔
پورے ملک میں 26؍ جنوری جشن ِیوم جمہوریہ کے طور پر منایاجاتاہے۔ زبان حال سے اس بات کا اعتراف کیاجاتاہے کہ ہندوستان دنیا کا واحد ملک ہے ،جہاں غیر مذہبی جمہوریت قائم ہے۔ اس جمہوریت کی سب سے امتیازی خصوصیت یہ ہے کہ یہاں کے باشندوں کو اپنی حکومت منتخب کرنے کا بھرپور حق حاصل ہے۔ یہ دستور اپنے شہریوں کے حقوق کی حفاظت کرتی ہے۔یہاں کے تمام باشندو ں کو بلا تفریق مذہب وملت ایک مشترکہ جمہوریت کی لڑی میں پرودیا گیا ہے۔ اس میں تمام مذاہب کی اہمیت کا اعتراف کیا گیا ہے اور ہر مذہب کے پیروکاروں کو اپنے مذہب پر عمل پیرا ہونے کی پوری آزادی دی گئی ہے۔
لہذا جملہ باشندگان ہند کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ آئین ہند کی حفاظت کرے ، آئین کو ملک میں سربلند رکھے اور اسے پوری طرح ہر حالت میں نافذ العمل ہونے دے تاکہ جمہوری روایات کو مسلسل فروغ ملتا رہے۔
ملک میں برسراقتدار حکومت کے عہدیداران اپنے فرائض کوقانون کے مطابق اداکریں، حتی کہ اگر کوئی اعلیٰ سے اعلیٰ افسر بھی انہیں قانون کے منافی عمل کرنے پر آمادہ کرے تو اس کا حکم ماننے سے صاف طورپر انکار کردے۔ کیونکہ آئین کی بالادستی کویقینی بنانا ریاست کے تینوں ستونوں عدلیہ،انتظامیہ اور مقننہ کا فرض ہے۔
آئین نے عدلیہ پربنیادی حقوق کے تحفظ کی بھاری ذمہ داری عائد کی ہے۔ لہذا عدل وانصاف کا عمل ملک میں وحدت اور اخوت وبھائی چارگی کا کا سب سے بہتر ذریعہ ہے۔ اس لیے عدلیہ کی ذمہ داری ہے کہ دستور ہند کے دائرے میں رہتے ہوئے باشندگان ہندکے مسائل کو سلجھانے کی کوشش کرے ۔ اور ملک کی فضا کو خوشگوار بنانے میں اہم کردار ادا کرے، تاکہ یہ ملک جس طرح آبادی اور جمہوریت کے لحاظ سے دنیا کے نقشے پردوسرے مقام پر ہے،اسی طرح یہ عدل وانصاف اور یہاں کے باشندوں کے حقوق کی حفاظت کے اعتبار سے بھی نمایا ں ہوں اور پوری دنیا میں اس کا شمار سب سے انصاف پسند ملک کے طور پر ہو۔