پاکستان میں حکومت مخالف تحریکوں کے دوران ایک لفظ بڑی کثرت سے سنا جاتا ہے جلسے اور جلوسوں میں ہر سیاسی جماعت کا قائد اس لفظ پر بہت زور دیتا ہے کہ حکومت کے تابوت میں آخری کیل ٹھونک دیا ہے جبکہ حکومتی اراکین اپنے خلاف اٹھنے والی ہر تحریک کو مردہ گھوڑے سے تشبیع دیتے ہیں جب سے عمران خان کی برسراقتدار آیا اسی وقت سے مخالفین حکومت کے چل چلاؤ کی باتیں کررہی ہے یہ صرف اسی حکومت میں نہیں ہورہا بلکہ پچھلی تمام حکومتوں کے ساتھ ایسے ہی واقعات ہوتے رہے آصف علی زرداری جب صدارت کے منصب پر فائز ہوئے تو اس وقت بھی مخالفین انہیں وقت نہیں دے رہے تھے بلکہ کیل اور ہتھوڑی ہاتھ میں پکڑے تابوت ڈھونڈتے رہے اور زرداری صاحب اپنے پانچ سال پورے کر گئے اسی طرح پی ٹی آئی حکومت بھی اپنی مدت پوری کر جائیگی لیکن کیل ٹھکتا ہوا نظر نہیں آرہا دونوں گروپ یعنی حکومت اور اپوزیشن ایک دوسرے کو مشکل وقت دینے کے لیے سر توڑ کوشش کرتے رہتے ہیں۔
خاص کر اپوزیشن کسی اچھے کام میں حکومت کا ساتھ دینا گوارا نہیں کرتی بلکہ انکی کوشش ہوتی ہے حکمران طبقہ اور عوام کو جتنا زیادہ تنگ کیا جائے اتنا ہی انکے مفاد میں بہتر ہوگا اسی لیے تو ہم آگے جانے کی بجائے پیچھے جارہے ہیں آپ ہمارے سیاستدانوں کے صرف ایک دن کے بیانات پڑھ کردیکھ لیں ان میں کوئی نئی بات نظر نہیں آئے گی بلکہ وہی پرانی اور گھسی پٹی باتیں ہوتی ہیں جو کئی دہائیوں سے سن اور پڑھ رہے ہیں حکومت اور اپوزیشن کے چند کھلاڑیوں کے تازہ تازہ بیانات ہیں آپ بھی پڑھیں تاکہ اندازہ ہوسکے کہ ان میں نئی بات کونسی ہے رہی بات رپورٹوں کی انکے پیچھے بھی مفادات ہوتے ہیں جو کسی نہ کسی شکل میں بطور لفظی گولہ باری کے استعمال ہوتی ہیسب سے پہلے پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) اور جے یو آئی (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان کا بیان ملاحظہ ہو جنکا کہنا ہے کہ مہنگائی کے خلاف لانگ مارچ ہر صورت 23مارچ کو ہوگا جوموجودہ حکمرانوں کے خاتمے کے لیے مارچ آخری کیل ثابت ہوگا۔
عوام ملک کے کونے کونے سے 23 مارچ کو اسلام آباد کا رخ کریں گے ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل نے حکمرانوں کی مصنوعی ایمانداری کا آئینہ دکھادیا پی ٹی آئی اپنی قوت سے نہیں کسی اور قوت سے پارٹی بنی ای وی ایم غیرآئینی عمل ہے ہم ایسے الیکشن کوتسلیم نہیں کریں گے یہ آرٹی ایس کا دوسرا نام ہے آجکل ملک میں ایک صدارتی طرزحکومت کی خلائی تجاویزگردش کررہی ہے یہ آئین کے ڈھانچے کے خلاف سازش لگتی ہے اس ناپاک خواہش کوکبھی پورا نہیں ہونے دیا جائے گا صدارتی طرزحکومت پاکستان میں ایک سیاہ تاریخ رکھتا ہے کسی صورت قبول نہیں۔
مولانا صاحب کے بعد امیر جماعت اسلامی سراج الحق صاحب کا فرمانا ہے کہ پی ٹی آئی کے دور حکومت میں پاکستان نے کرپشن میں 16درجے ترقی کی ہے وزیراعظم کا کہنا درست ثابت ہو گیا کہ وہ ملک کے لیے خطرناک ہیں جو کام حکومتوں نے 74سالوں میں نہیں کیا پی ٹی آئی نے ساڑھے تین برسوں میں کر دکھایا ملکی قرضہ 31ہزار ارب سے 50ہزار ارب تک پہنچ گیا مافیاز نے عوام کی جیبوں سے 1880ارب نکلوا لیے۔ ملک میں اس وقت بھی 28کے قریب نصاب رائج ہیں ایک طرف ایلیٹ کلاس کے لیے بنائے گئے تعلیمی ادارے ہیں دوسری جانب غریبوں کے بچوں کے سکولوں میں واش روم اور ٹائلٹ تک دستیاب نہیں ہزاروں تعلیمی مدارس بنیادی سہولتوں سے محروم ہیں پی ٹی آئی کی حکومت میں مافیاز کا راج ہے صحت اور تعلیم کا نظام تباہ کر دیااور بڑی اپوزیشن جماعتیں فرینڈلی میچ کھیل رہی ہیں۔
عوامی نیشنل پارٹی کے سیکرٹری جنرل و چیئرمین خدائی خدمتگار تنظیم میاں افتخارحسین نے بھی فرمایا ہے کہ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی حالیہ رپورٹ نے حکمرانوں کو مزید بے نقاب کردیا ہے چور راستوں سے اقتدار پر مسلط حکمران راہ فرار ڈھونڈ رہے ہیں ماضی کی حکومتوں پر الزامات لگانے والے کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہیں رہے کرپشن کا خاتمہ کرنے کے دعویداروں نے چوریوں کے ریکارڈ قائم کردیئے ہیں۔ پاک سرزمین پارٹی کے چیئرمین سید مصطفیٰ کمال بھی کسی سے پیچھے نہیں رہے وہ بھی فرماتے ہیں کہ 30 جنوری کا سورج ثابت کردے گا کہ پی ایس پی سندھ کے ظالم اور متعصب حکمرانوں کے ظلم کیخلاف سیسہ پلائی دیوار ہے صوبہ سندھ میں لسانی بنیادوں پر فسادات کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے ورنہ جس طرح بھولو خانزادہ کے قتل پر سیاست کی گئی اس سے صاف ظاہر ہے کہ موت کے سوداگروں کو اپنی ناکام سیاست چمکانے کے لیے لاشوں کا انتظار ہے۔
اب آتے ہے حکومتی بیانات کی طرف جو اپوزیشن اور انکے ہمنواؤں کو مردہ گھوڑا تصور کرتے ہیں وزیر مملکت اطلاعات و نشریات فرخ حبیب نے اپوزیشن کے الزامات کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ پی ڈی ایم ایک مردہ گھوڑا ہے ہر ایک یا دو ماہ بعد اس میں جان ڈالنے کی ناکام کوشش کی جاتی ہے پی ڈی ایم میں شامل جماعتوں کے پاس کرنے کے لئے کوئی کام نہیں ہے اس لئے مہینے بعد بیٹھک لگائی جاتی ہے سیاسی ماڈلنگ شو اور کیٹ واک سے ہمیں کوئی مسئلہ نہیں ہے،پی ڈی ایم جب سے بنی ہے آج تک کسی ایک نکتے پر اتفاق رائے قائم نہیں کرسکی پی ڈی ایم والے بتائیں کہ پارلیمنٹ سے استعفے دینے والے فیصلے پر یوٹرن کیوں لیاگیا؟ پاکستانی سیاست کا 12واں کھلاڑی اپنے حلوے کی پلیٹ کے لئے پوری دیگ انڈھیلنے کی خواہش رکھتا ہے۔
وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات فواد چودھری بھی کسی سے پیچھے نہیں رہتے اور وہ وقتا فوقتا اپنی موجودگی کا احساس دلاتے رہتے ہیں انکا کہا ہے کہ ہمارا سامنا منظم مافیا سے ہے، ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل کی رپورٹ کا سر ہے نا پاؤں جب عالمی بینک پاکستان کی 5.37 فیصد سے ترقی کی تصدیق کر رہا ہے اس وقت ایسی بے سروپا رپورٹ آتی ہے جبکہ کورونا سے نبٹنے کی حکومتی پالیسیوں کی تعریف عالمی سطح پر ہو رہی ہے اللہ کی شان ہے کہ ن لیگ اور فضل الرحمان کا عمران خان حکومت کو کرپٹ کہنا آسمان پر تھوکنے کے مترادف ہے جن کے پیسے لندن میں سیاست پاکستان میں ہوتی ہے اور اکاونٹ چپراسیوں کے نام پر نکلتے ہیں۔ رہی بات وزیر اعلی پنجاب سردار عثمان بزدار کی انکی تعریف خود وزیر اعظم عمران خان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ پنجاب حکومت نے پچھلی حکومت کی نسبت صحت کا پراجیکٹ 2سو گنا بڑھایا اس میں 8ہسپتال ماں بچہ بن رہے ہیں جبکہ 52ہسپتالوں کو اپ گریڈ کیا ہے صحت کارڈ کے علاوہ 23نئے ہسپتال بھی بنائے جارہے ہیں۔ہمیں بطور ووٹر اور عوام سب کی کارکردگی پر نظر رکھنے کی ضرورت ہے آخری کیل اور مردہ گھوڑے کی سیاست کو دفن کرکے ہمیں آگے کی سوچ اپنانا ہو گی۔