افغانستان کی امداد انسانی حقوق کے تحفظ سے مشروط

Taliban

Taliban

کابل (اصل میڈیا ڈیسک) مغربی سفارت کاروں نے افغانستان کی امداد کو انسانی حقوق کی صورتحال میں بہتری سے مشروط کر دیا ہے۔ ادھر کابل میں خواتین نے ایک مظاہرے میں مطالبہ کیا ہے کہ افغانستان کے منجمد اثاثے بحال کیے جائیں۔

ناروے میں طالبان کے وفد اور یورپی ممالک کے سفارت کاروں کے مابین بند کمرے میں ہونے والے مذاکرات سے توقع ہے کہ فریقین افغانستان میں انسانی بحرانی المیے سے بچنے کی کوئی راہ تلاش کر لیں گے۔ تاہم ان مذاکرات کے اختتام پر طالبان کی طرف سے کوئی نیا بیان جاری نہیں کیا گیا۔ یہ وفد منگل کی رات واپس افغانستان روانہ ہو گیا۔

یورپی سفارت کاروں نے طالبان کے ساتھ اپنی اس ملاقات کو اہم قرار دیتے ہوئے کہا کہ صورتحال کا بہتر اندازہ لگانے کی خاطر اس طرح کی مزید کانفرنسوں کی ضرورت ہے۔

طالبان نمائندوں کے تاریخی دورہ یورپ کے موقع پر تمام نگاہیں اس مذاکراتی عمل کے نتائج پر گڑی ہوئی تھیں تاہم ابھی تک اس حوالے سے کوئی ٹھوس بیان جاری نہیں کیا گیا ہے۔

تاہم ایک بات واضح ہے کہ مغربی سفارت کار چاہتے ہیں کہ افغانستان کی عالمی امداد کی بحالی اسی صورت میں ہو، جب اس شورش زدہ ملک میں انسانی حقوق بالخصوص خواتین اور اقلیتوں کا تحفظ کی یقین دہانی کرائی جائے گی اور انہیں معاشرے کے مرکزی دھارے میں اپنا کردار نبھانے کی اجازت دی جائے۔

مغربی سفارت کاروں نے یہ بھی کہا ہے کہ اس مذاکراتی عمل کو طالبان کی حکومت کو تسلیم کرنے کے مترادف نہ سمجھا جائے۔

دوسری طرف طالبان عالمی حمایت اور امداد کی وصولی کے لیے تمام تر شرائط پوری کرنے پر رضا مند نظر آ رہے ہیں۔ طالبان وفد کی نمائندگی کرنے والے خارجہ امور کے سربراہ امیر خان متقی نے فرانسیسی، برطانوی اور ناوریجین اعلیٰ سفارت کاروں سے ملاقات میں یقین دہانی کرائی ہے کہ وہ خواتین اور اقلیتوں کے حقوق کا تحفظ یقینی بنائیں گے اور ملک میں بچیوں کی تعلیم پر پابندی نہیں لگائی جائے گی۔

تاہم افغانستان سے موصول ہونے والی اطلاعات کے مطابق صورتحال کچھ حوصلہ افزا نہیں ہے۔ طالبان کی عمل داری کے بعد سے میڈیا کی آزادی کے علاوہ اظہار رائے پر قدغنوں اور خواتین کے خلاف جبر کے کئی واقعات رپورٹ ہو چکے ہیں۔

طالبان نے گزشتہ برس اگست میں ملک کا کنٹرول سنبھال لیا تھا، جس کے بعد عالمی سطح پر جاری کی جانے والی اس کی امداد روک لی گئی تھی۔ اس صورتحال میں یہ وسطی ایشیائی ملک شدید اقتصادی مشکلات کا شکار ہو چکا ہے۔ طالبان کی عمل داری سے قبل اس ملک کا اسّی فیصد بجٹ غیر ملکی امداد پر بن رہا تھا۔

طالبان کے وزیر خارجہ امیر خان متقی نے البتہ اوسلو کے نواح میں منعقدہ اس مذاکراتی عمل پر تسلی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ اعتماد سازی کا بہترین پلیٹ فارم تھا۔ انہوں نے اپنے دورہ یورپ کو اہم قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہی بڑی بات ہے کہ وہ عالمی سطح پر اپنا مؤقف بیان کرنے کے قابل ہوئے ہیں۔

کابل میں برقع پوش خواتین کا احتجاج
اقوام متحدہ کے تازہ اعدادوشمار کے مطابق افغانستان کی پچپن فیصد آبادی کم خوراکی کا شکار ہے۔ عالمی ماہرین خبردار کر چکے ہیں کہ افغانستان میں انسانی بحرانی المیہ شدت اختیار کر سکتا ہے، اس لیے عالمی طاقتوں کو عام شہریوں کی امداد پہنچانے کی خاطر فوری اقدامات کرنا چاہییں۔

اس صورتحال میں بدھ کے دن کابل میں خواتین نے ایک احتجاجی مظاہرہ کیا اور عالمی طاقتوں سے اپیل کی کہ وہ افغانستان کے منجمد اثاثوں کو بحال کرے اور اس ملک کی مالی مدد میں اپنا کردار ادا کرے۔

طالبان کی اجازت سے کیے جانے والے اس احتجاج میں خواتین کی ایک معقول تعداد شریک ہوئی۔

برقع پوش ان خواتین نے کابل میں سابقہ امریکی سفارتخانے کے سامنے ایک ریلی میں شرکت کی اور نعرے بازی بھی کی۔ ان خواتین نے بینرز اور پلے کارڈ اٹھا رکھے تھے، جن پر امداد کی بحالی کے مطالبے درج تھے۔