جرمنی (اصل میڈیا ڈیسک) جرمنی سمیت متعدد یورپی ممالک میں آج جمعرات ستائیس جنوری کو بہت سی سرکاری اور عوامی تقریبات کے ساتھ ہولوکاسٹ کا خصوصی یادگاری دن منایا جا رہا ہے۔ نازی دور کا بدنام زمانہ آؤشوِٹس اذیتی کیمپ آج ہی کے دن آزاد کرایا گیا تھا۔
دوسری عالمی جنگ کے دوران جرمنی میں نازی حکمرانوں نے یہودیوں کا ہولوکاسٹ کہلانے والا جو قتل عام شروع کیا تھا، اس دوران جرمنی کے علاوہ نازیوں کے زیر قبضہ یورپی ممالک سے بھی ملک بدر کر کے کئی ملین یہودیوں کو مشقتی اور اذیتی کیمپوں میں پہنچا کر قتل کر دیا گیا تھا۔
آڈولف ہٹلر کی قیادت میں نازیوں نے یہودیوں کے لیے جو بہت سے اذیتی کیمپ قائم کر رکھے تھے، ان میں سے سب سے بدنام مقبوضہ پولینڈ میں آؤشوِٹس بِرکیناؤ کا اذیتی کیمپ تھا، جہاں تقریباﹰ 11 لاکھ یہودیوں کو قتل کیا گیا تھا۔ 1940ء میں بنایا گیا یہ اذیتی کیمپ دوسری عالمی جنگ کے اختتام سے چند ماہ پہلے سابق سوویت یونین کے فوجیوں نے 27 جنوری 1945ء کو آزاد کرا لیا تھا۔ اسی کیمپ کی آزادی کے دن کو اب ہر سال ہولوکاسٹ کے خصوصی یادگاری دن کے طور پر منایا جاتا ہے۔
کیمپ کی آزادی کی ستترویں برسی آج 27 جنوری کو اس کیمپ کی آزادی کی 77 ویں برسی کے موقع پر یورپ کے بہت سے ممالک میں ہولوکاسٹ میموریل ڈے کی نسبت سے سینکڑوں تقریبات کا اہتمام کیا گیا، جو دن بھر جاری رہیں گی۔ اس دوران یورپی یونین کی پارلیمان میں سینکڑوں ارکان نے ایک منٹ کی خاموشی بھی اختیار کی اور ہولوکاسٹ میں زندہ بچ جانے والی اور اس وقت 100 برس کی عمر کی ایک خاتون مارگوٹ فریڈلینڈر نے بھی یورپی پارلیمان سے خطاب کیا۔
اس سال کورونا وائرس کی عالمی وبا کے باعث ہولوکاسٹ میموریل ڈے کی بہت سی تقریبات کا انعقاد آن لائن بھی کیا جا رہا ہے۔ آج کے دن کو ہر سال ہولوکاسٹ میموریل ڈے منانے کا فیصلہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے نومبر 2005ء میں منظور کی جانے والی ایک قرارداد میں کیا تھا۔
مارگوٹ فریڈلینڈر کی کہانی آج 100 برس کی عمر میں یورپی پارلیمان سے خطاب کرنے والی مارگوٹ فریڈلینڈر کا تعلق ایک یہودی گھرانے سے ہے۔ انہیں 1944ء میں نازیوں کے قبضے میں آ جانے سے بچنے کی کوششوں کے دوران گرفتار کر لیا گیا اور ایک ایسے علاقے میں ایک نازی اذیتی کیمپ میں بھیج دیا گیا تھا، جو موجودہ چیک جمہوریہ کا حصہ ہے۔
مارگوٹ فریڈلینڈر کی گرفتاری سے ایک سال قبل 1943ء میں نازیوں نے ان کی والدہ اور بھائی کو بھی گرفتار کر کے آؤشوِٹس کے اذیتی کیمپ میں بھیج دیا تھا، جہاں لاکھوں دیگر قیدیوں کی طرح انہیں بھی قتل کر دیا گیا تھا۔
جنگ کے بعد 1946ء میں مارگوٹ فریڈلینڈر اپنے شوہر کے ساتھ امریکا منتقل ہو گئی تھیں، جہاں سے وہ 2010ء میں واپس برلن آ گئی تھیں اور اب جرمنی ہی میں رہتی ہیں۔ وہ جرمنی بھر میں سفر کرتی ہیں اور لوگوں کو اپنی زندگی کے تجربات بتاتی ہیں تاکہ ہولوکاسٹ کی یاد کو زندہ رکھا جا سکے۔
کئی ملین انسانوں کا قتل دوسری عالمی جنگ کے دوران نازیوں نے مجموعی طور پر مختلف یورپی ممالک کے رہنے والے تقریباﹰ چھ ملین یہودیوں کو قتل کیا تھا۔ لیکن ہولوکاسٹ میں صرف یہودی ہی نہیں مارے گئے تھے بلکہ ان کے علاوہ کئی ملین ایسے انسان بھی نازیوں کی انسان دشمنی کا شکار ہوئے تھے، جن کا تعلق یورپ میں روما اور سنتی خانہ بدوشوں کی نسل سے تھا یا جو ہم جنس پرست، جسمانی طور پر معذور یا ذہنی طور پر بیمار تھے۔
ان لاکھوں مقتولین میں یہودیوں اور دیگر زیر عتاب انسانوں کو پناہ دینے والے یا ان کی مدد کرنے والے انسان بھی شامل تھے۔ ہولوکاسٹ میں مجموعی طور پر تقریباﹰ 1.5 ملین بچے بھی قتل کر دیے گئے تھے۔