میں بدعنوانی،اور چور بازاری کا اگر ایمانداری سے سروے کیا جائے تو ہم ہر شعبے میں پہلے نمبر پر آئیں گے کرپشن کرنے والے انکی سرپرستی کرنے والے اور انہیں پکڑنے والے سب مل بانٹ کر کھانے کی پالیسی پر گامزن ہیں مگر اسکے باوجود عالمی اقتصادی فورم نے انسداد بدعنوانی کیلئے نیب کی کوششوں کوسراہا تے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان نے بدعنوانی کے خاتمے،انسانی وسائل کی ترقی،ماحولیات کے تحفظ،صحت کی یکساں خدمات کی فراہمی اور تخفیف غربت کا پروگرام شروع کر کے عالمی لیڈرشپ کا مظاہرہ کیا ہے۔ عالمی اقتصادی فورم کی جانب سے جاری کی گئی رپورٹ کے مطابق نیب پاکستان کا انسداد بدعنوانی کا اعلیٰ ادارہ ہے نیب کی موجودہ انتظامیہ کے دور میں بدعنوانی کی روک تھام کیلئے کئی اقدامات کئے گئے ہیں جس کے نتائج آنا شروع ہو گئے ہیں۔
نیب نے 2021ء کے دوران 30 ہزار 405 شکایات پر کارروائی کی۔ 1681 شکایات کی جانچ پڑتال،1326 انکوائریاں اور 496 انوسٹی گیشنز کی منظوری دی جبکہ 2020ء میں بلواسطہ اور بلاواسطہ طور پر 323 ارب روپے ریکور کئے جو کہ گزشتہ برسوں کے مقابلے میں نیب کی شاندار کارکردگی ہے اس سروے میں پاکستان کا سکور148اعشاریوں کو ظاہر کرتا ہے اس سروے سے ظاہر ہوتا ہے کہ حکومت نے مستقبل پر مبنی پالیسیوں اور سوچ میں اہم کامیابیاں حاصل کی ہیں حکومت کے کم مدتی اور طویل مدتی پروگراموں کی سوچ میں بہتری آئی ہے جوکہ گزشتہ سال 3.88اوررواں سال 4.42ہے اس سے نہ صرف قومی سطح پر بلکہ بین القوامی طور پر بھی پاکستان کے بارے میں رائے عامہ تبدیل ہوئی ہے۔
پاکستان نے احساس پروگرام کے ذریعے سماجی سرمایہ کاری اور انسانی عظمت پر زور دے کر عالمی لیڈرشپ کا کرداربھی ادا کیا ہے پاکستان نے کورونا وائرس کا حل سمارٹ لاک ڈاؤن تلاش کیا ہے جس میں ایس او پیز کے تحت کاروبار کی اجازت دی گئی ہے پاکستان اس سوچ کا بانی ہے پاکستان کی کورونا کے دوران سمارٹ لاک ڈاؤن پالیسی کے بڑے پیمانے پر اعتراف کیا گیا جس میں زندگی اور ذریعہ معاش کے توازن پر توجہ مرکوز کی گئی ہے حکومت نے عوام کے صحت کے مسائل کے حل کے لئے صحت کی خدمات کی یکساں فراہمی کے لئے صحت کارڈ کا اجراء کیابلخصوص وزیر اعلی پنجاب سردار عثمان بزدار نے پنجاب کے ہر گھرانے کے لیے 10لاکھ تک علاج معالجہ کی سہولت فراہم کرکے عوام کا دل جیت لیا ہے۔
اب کوئی فرد پرائیوٹ یا سرکاری ہسپتال سے اپنا مفت علاج کرواسکے گا یہ پنجاب حکومت کا ایک عظیم کارنامہ ہے جبکہ ماحول دوست اقدامات کے تناظر میں کلین اینڈ گرین پاکستان خطے کی تاریخ میں بے مثال ہے ایک طرف وزیر اعظم عمران خان کی سوچ ہے تو دوسری طرف ہماری بھی اپنی ایک الگ ہی سوچ ہے ہم نے ہر اچھے کام میں بھی کیڑے ڈھونڈنے ہیں اور اپنے برے کام بھی حکمرانوں کے کھاتہ میں ڈالنے ہوتے ہیں اس وقت دنیا میں ایک بحران کی سی کیفیت ہے بڑے بڑے عوامی فلاحی ممالک میں بھی مہنگائی آسمان کو چھو رہی ہے بے روزگاری اپنی آخری حدوں کو عبور کررہی ہے۔
انکے مقابلہ میں ہم بہت سکون میں ہیں موجودہ حکومت نے بہت سے عوامی فلاحی منصوبے شروع کر رکھے ہیں اور ان فلاحی منصوبوں کے ثمرات عوام تک پہنچانے کے لیے ہمارے محکمے اور ان میں بیٹھے ہوئے افراد ہیں حکومت کی لاکھ کوششوں کے باوجود ان منصوبوں کے اثرات عوام تک نہیں پہنچتے کیوں نہیں پہنچتے اس کی بڑی وجہ اداروں میں بیٹھا ہوا مافیا ہے جو اتنے کرپٹ ہوچکے ہیں کہ چراغ لیکر ڈھونڈنے سے بھی کوئی ایسا فرد ملنا ناممکن ہے جو اپنا کام ایمانداری،خلوص اور پیار محبت سے کررہا ہو حکمران لاکھ کوشش کرلیں جب تک ہم اپنے آپ کو درست نہیں کرینگے اس وقت تک معاشرہ ٹھیک ہوسکتا ہے اور نہ ہی ملک ترقی یافتہ ممالک کی فہرست میں شامل ہوسکتا ہے۔
ہم دوسروں کا حق غضب کرنا عین ایمانداری سمجھتے ہیں اور جنہوں نے حق لیکر دینا ہوتا ہے وہی حق چھیننے میں مصروف ہیں پولیس کا رویہ ابھی تک تبدیل نہیں ہوسکا تھانوں میں ملک مکا عروج پر ہے نہ صرف پولیس تھانوں میں بلکہ اس وقت پنجاب پولیس اور اسکے نیچے کام کرنے والے اینٹی رائٹ فورس (ARF)، پنجاب سیف سٹیز اتھارٹی (PSCA)، کاؤنٹر ٹیررازم ڈیپارٹمنٹ (سی ٹی ڈی)، فوجداری تحقیقاتی ایجنسی (سی آئی اے)، خصوصی تحفظ یونٹ(SPU)، پنجاب ایلیٹ فورس، پنجاب باؤنڈری فورس، پنجاب ریور پولیس، پنجاب ٹریفک پولیس، پنجاب ہائی وے پٹرول، پنجاب ڈولفن فورس، پنجاب کانسٹیبلری اور سپیشل برانچ وغیرہ سبھی کے شیر جوان اپنی اپنی دیہاڑی لگانے میں مصروف ہیں اسی طرح اے جی آفس،ریونیو ڈیپارٹمنٹ،واپڈا،محکمہ انہار،اوقاف،محکمہ تعلیم سمیت سبھی محکمے عوام کی خدمت کی بجائے عوام کو تنگ کرنے میں مصروف ہیں ایسا لگتا ہے کہ یہ ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت سب کچھ ہورہا ہے کوئی ایسی طاقت انکی ڈوریاں ہلا رہی ہے کہ جتنا تنگ کرسکتے ہو لوگوں کو کرلو تاکہ عوام حکومت کے خلاف ہو جائیں کرپشن اور لوٹ مار کی داستانیں ہر جگہ زبان زد عام ہیں اور کرپٹ افراد کے خلاف کچھ ہو بھی نہیں رہا ابھی محکمہ تعلیم میں درجہ چہارم کے ملازمین لاکھوں روپے کے عوض رکھے گئے کیا ہمارے وہ ادارے جن کا کام ہی معلومات اکٹھی کرنا ہے وہ اس سے بے خبر ہیں یا جان بوجھ کر ایسی رپورٹوں کو نظر انداز کررہے ہیں تاکہ کرپٹ افراد مزید کھل کر اپنا کھیل جاری رکھیں اور عوام کی نظروں میں حکومت بدنام ہوتی رہے یہی وجہ ہے کہ حکومت مخالفین سبھی لٹیرے اس وقت ایک پیج پر ہیں۔