جہاں میںجہاں بھی برف باری کا موسم شروع ہو تا ہے تو اطراف کے لوگ برف باری کے آغاز پر برف باری کو انجوائے کر نے کے لیے بلند مقامات کا رخ کرتے ہیں جہاں پر برف باری کے آغاز کے ساتھ ہی آسمان سے برف باری کی نرم و ملائم ریشمی چاندی جیسی تتلیاں ہوا کے دوش پر لہراتی بل کھاتی رقص کر تی زمین کا رُخ کر تی ہیں یہ برفیلی تتلیاں جب انسانوں درختوں اور زمین پر تواتر کے ساتھ برستی ہیں تو ہر چیز برف کی چاندی جیسی چادر لپیٹ لیتی ہے اگر آپ برف کا حقیقی لطف اٹھانا چاہتے ہوں تو گرما گرم چائے یا کافی کا بھاپ اڑاتا کپ لے کر خوب گرم کپڑے ٹوپی مفلر دستانے لونگ شوز لے کر کھلے آسمان کے نیچے کھڑے ہو جائیں پھر آسمان سے اُترتی برف کی تتلیاں چاندی جیسے ریشمی پھولوں کی طرح آپ کے چہرے جسم کے بوسے لے کر چپک جاتی ہیں آپ کے ہاتھ لگانے پر پگھل کر پانی بن جاتی ہیں آپ کے چاروں طرف آسمان سے برف سفید پھولوں کی شکل میں برستی نظر آتی ہے پھر آپ کے دیکھتے ہی دیکھتے زمین برف کی چادر اوڑھ لیتی ہے۔
درختوں پر بھی برف ہی برف نظر آتی ہے زمین پر برف ریشمی ریت کی طرح چاروں طرف پھیلی نظر آتی ہے پھر بچے جوان اِس ریشمی ریت کو ہاتھوں میںاٹھا کر ریشمی گولے بنا کر ایک دوسرے پر پھینک کر برف کا خوب لطف اٹھاتے ہیں کچھ لوگ برف کے گولے بنا کر روح افزا ڈال کر لطف اٹھا تے ہیں میلوں دور تک چاروں طرف برف ہی برف ۔ایک حد تک برف باری ہو تو لطف خوشی کا باعث بنتی ہے لیکن اگر برف باری کا سلسلہ طویل ہو جائے یہ گھنٹوں سے دنوں میں بدل جائے تو برف انچوں سے فٹوں میں تبدیل ہو کر زندگی کو مفلوج کر دیتی ہے ایسا ہی درد ناک دلخراش واقعہ سات اور آٹھ جنوری کو پیش آیا جب طویل برف باری کی وجہ سے کوہ مری میں کاروباری زندگی مفلوج ہو کر رہ گئی برف باری کی شدت کلڈنہ روڈ سے باڑیاں کی طرف جانے والی سڑک پر تھی راقم اپنی نوکری کے سلسلے میں بارہ سال کو ہ مری کی جنت نظیر وادی میں رہا ہے۔
یہ بارہ سال کلڈنہ روڈ پر ہی واقع میرے کالج اور رہائش میں گزرتے اِس طرح میں اُس لوکیشن سڑک کو اچھی طرف جانتا ہوں کہ جب میں وہاں پر موجود تھا جیسے ہی دسمبر کا مہینہ شروع ہو تا برف باری کا آغاز ہو جاتا پورے علاقے میں برف باری صرف نام کو ہی پڑتی لیکن کلڈنہ روڈ اور ایوبیہ کی طرف علاقوں میں بہت زیادہ برف پڑتی جب برف بہت زیادہ پڑجاتی تو کاروبار زندگی معطل ہو کر رہ جاتی مجھے آج بھی یاد ہے برف باری جب ایک بار بہت زیادہ پڑ جاتی تو وہ مارچ اپریل تک پھر پڑی رہتی پانی کی سپلائی معطل ہو جاتی ہم پائپوں پر گرم کپڑے لپیٹتے پھر بھی چار بجے کے بعد پانی بند ہو جاتا رات کو جرسیاں سویٹر پہن کر سوتے رات کو اگر کمبل رضائی سے ہاتھ پائوں باہر نکل جاتا تو ٹھنڈ سے اُٹھ جاتے سالن جیسے ہی پلیٹوں میں ڈالتے جم جاتا اُس وقت مری میں سوئی گیس نہیں تھی جس کی وجہ سے سردی کی شدت اور بھی بڑھ جاتی مری کے لوکل لوگ برف باری میں اپنے گھروں کو تالے لگا کر اسلام آباد پنڈی کا رُخ کر تے یا نیچے کے علاقوں میں چلے جاتے جہاں برف نہیں ہوتی تھی۔
برف باری کی وجہ سے درخت گر جاتے یا بجلی کی تار ٹیلی فون کی تار ٹوٹ جاتی تو مہینوں انتظار کر نا پڑتا وہ برف باری جو شروع میں خوشگوار منظر پیدا کرتی اب سرد جہنم کا روپ دھار لیتی ۔سزا کا روپ اختیار کر لیتی ترقی یافتہ ملکوں میںجہاں پر برف باری ہوتی ہے وہاں پر سردی سے اور برف باری سے بچائو کے ضروری اقدامات کر لیے جاتے ہیں تاکہ سیاح لوگ برف باری کو اچھی طرح انجوائے کر سکیں جو لوگ برف باری سے لطف اٹھانے جاتے ہیں وہ بھی باخبر ہوتے ہیں کہ برف کے مسائل کا مقابلہ کس طرح کرنا ہے موجودہ سات جنوری کو جب برف باری شروع ہوئی تو پاکستانی قوم سیلاب کی طرح مری کی طرف دوڑے مری چھوٹا سا شہر جہاں دس ہزار گاڑیوں کے داخلے کی گنجائش جب مری میں ڈیڑھ لاکھ گاڑیوں کا حملہ ہوا تو تیز مسلسل برف باری اور لاکھوں گاڑیوں کی آمد اور پاکستان سے جانے والے سیاح لوگ برف باری میں گاڑی چلانے سے ناواقف اناڑی ڈرائیور گنجائش سے بہت زیادہ گاڑیوں کی یلغار شدید بارش برف باری سڑک پر پھسل پھسل کر گاڑیاں ایک دوسری سے ٹکرانے لگیں۔
درخت ٹوٹ کر روڈ پر گرنے لگے رفتار سست ہونے کے بعد بہت ساری گاڑیاں کا پٹرول ختم ‘طویل گاڑیوں کی قطاریں گاڑیاں روڈ پر جام ٹریفک جام زندگی معطل ہو کر رہ گئی مری کی انتظامیہ ٹریفک کنٹرول کر نے والے اے سی مری روڈ کو صاف کرنے والا عملہ اس قدر زیادہ برف باری لاکھوں گاڑیوں کی آمد کے لیے تیار نہیں تھے اگر محکمہ مو سمیات کی برف باری کی پیشن گوئی کو سنجیدگی سے لے لیتے تو زیادہ مشینری زیادہ پولیس فورس کو بلا کر انتظامات کر لیتے اوپر سے شدید برف باری گاڑیاں انسانوں سے بھری ہوئی کھلے آسمان کے نیچے بے یارو مدد گار سیاح لوگ جس برف باری کا لطف اٹھانے آئے تھے وہ اب اُن کے لیے سرد جہنم کا روپ دھار چکی تھی برف باری کو صاف کر نے والی مشینیں ایک جگہ پر جام عملہ غائب اسے سی اور انتظامیہ غائب پولیس فورس غائب اب عوام برف باری اور قدرت کے رحم و کرم پر تھے۔
مری شہر فریز ہو کر رہ گیا تو مقامی لوگوں نے شکاری درندوں کا روپ دھار لیا پھر کوئی انڈہ پراٹھا مہنگا بیچ رہا ہے تو کسی نے کمرے کے کرا ئے کو آسمان کی بلندیوں تک اُٹھا دیا جام گاڑیوں کو حرکت کے لیے دس ہزار کے چین ہو گئے سیاح لوگ بیچارے اپنے زیورات بیچ کر زندگی چلاتے نظر آئے لیکن جو لوگ رات کو سڑکوں پر جہاں پر چاروں طرف برف ہی برف روڈ بند انتظامیہ مددگار سرکاری لوگ غائب اُن پر یہ برف باری موت بن کر ٹوٹ پڑی لوگ رات برف باری میں زندگی کی بازی ہارنے لگے گورنمنٹ کے اعداد و شمار کے مطابق بائیس قیمتی جانوں کو برف باری کے عفریت نے نگل لیاملکہ کوہسار جو قدرتی مناظر سے لبریز تھی وہ برف کا سرد جہنم بن گئی برف کے جہنم بننے میں انتظامیہ کا ہاتھ ہے اگر وہ حرکت میں رہتے اپنی ڈیوٹیاں احسن طریقے سے سرانجام دیتے ایسے لوگ بے یارومدد گار نہ مارے جاتے اِس افسوس ناک حادثے میں سیاحوں کی بے خبری انتظامیہ کی نااہلی کا سب سے زیادہ ہاتھ ہے اور ریاست مدینہ کے دعوے دار وں کے کھوکھلے نعروں کا ہاتھ ہے جو صرف اور صرف باتوں اور نعروں سے حکومت چلانے کی کو شش کررہے ہیں ظلم اور بے حسی کی انتہا تھی کہ چند کلومیٹر دور حکومتی اداروں کے اہلکار تھے جو خواب خرگوش کے مزے لوٹ رہے تھے جبکہ برف باری سرد جہنم بن کر زندہ انسانوں سے زندگی چھین رہی تھی اور حکومت نام کو نہ تھی۔
Prof Muhammad Abdullah Khan Bhatti
تحریر : پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی ای میل: help@noorekhuda.org فون: 03004352956 ویب سائٹ: www.noorekhuda.org فیس بک آفیشل پیج: www.fb.com/noorekhuda.org