میانمار ميں فوجی بغاوت کی پہلی برسی، مزید امریکی پابندیاں

Aung San Suu Kyi

Aung San Suu Kyi

امریکا (اصل میڈیا ڈیسک) امریکا، کینیڈا اور برطانیہ نے آنگ سان سوچی کے خلاف کارروائی میں ملوث میانمار کے اعلیٰ عہدے داروں پر نئی پابندیاں عائد کر دی ہیں۔ معزول ہونے کے ایک برس بعد، سوچی پر انتخابی اہلکاروں کو متاثر کرنے کا الزام عائد کیا گیا ہے۔

برطانیہ، کینیڈا اور امریکا نے پیر کے روز میانمار کے حکام کے خلاف مربوط پابندیوں کے سلسلے میں ایک نیا اعلان کیا۔ دوسری جانب اسی روز میانمار کے حکمران فوجی جنتا نے سابق رہنما آنگ سان سوچی کے خلاف نئے الزامات بھی عائد کردیے۔

مغربی ممالک کی جانب سے یہ پابندیاں ایسے وقت عائد کی گئی ہیں جب ملک میں سوچی کے خلاف فوجی بغاوت کو ایک سال مکمل ہو رہا ہے۔ اس بغاوت کے بعد ملک میں بڑے پیمانے پر مظاہرے شروع ہو گئے تھے اور پھر اپوزیشن کی آوازوں کو دبانے کے لیے ایک وحشیانہ کریک ڈاؤن شروع ہوا جس میں کم از کم 1,500 شہری ہلاک ہوئے۔

تینوں ممالک نے ایک ساتھ مل کر میانمار کے اٹارنی جنرل تھیڈا او، سپریم کورٹ کے چیف جسٹس ٹون ٹون او اور انسداد بدعنوانی کمیشن کے چیئرمین ٹن او پر پابندیاں عائد کی ہیں۔ ان ممالک کا کہنا ہے کہ یہ افراد جمہوریت نوازرہنما سوچی کے خلاف ”سیاسی مقاصد کے تحت” مقدمہ چلانے کے لیے جزوی طور پر ذمہ دار ہیں۔

امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے کہا کہ انہیں امید ہے کہ اس سے، ”حکومت نے بغاوت کے بعد جو پر تشدد اقدامات کیے ہیں، اس کے لیے احتساب کو فروغ دیا جا سکے گا۔”

ایک طرف مغربی ممالک نے فوجی حکمرانوں کے خلاف نئی پابندیوں کا اعلان کیا، تو دوسری جانب فوجی جنتا نے آنگ سان سوچی پر 2020 کے الیکشن کے دوران انتخابی عہدیداروں پر اثر انداز ہونے کا الزام عائد کیا۔ ان انتخابات میں سوچی کی نیشنل لیگ فار ڈیموکریسی پارٹی نے فوج سے منسلک حریف جماعت کو شکست دی تھی۔

فوجی جنتا نے سوچی پر غیر قانونی طور پر واکی ٹاکی درآمد کرنے اور کووڈ19 پروٹوکول کی خلاف ورزی کرنے سمیت کئی الزامات پہلے ہی عائد کیے تھے اور اب اس کے ساتھ ہی ملک کے سرکاری رازداری قوانین کی خلاف ورزی کا بھی الزام عائد کیا ہے۔

اگر یہ تمام الزامات ثابت ہو گئے تو 76 سالہ سوچی کو مجموعی طور پر 100 برس تک کی قید کی سزا ہو سکتی ہے۔

فوجی جنتا نے الیکشن میں دھاندلی کا دعویٰ کرتے ہوئے 2020 کے انتخابات کے نتائج کو کالعدم قرار دے دیا ہے۔ انہوں نے بغاوت کی سالگرہ سے قبل شہریوں کو خبردار کیا ہے کہ سوچی کی حمایت میں حکومت مخالف مظاہروں یا احتجاج کو قطعی برداشت نہیں کیا جائے گا۔

سوچی 1990 اور 2000 کی دہائیوں میں 15 برس تک فوجی حکومت کی طرف سے مسلط کردہ نظر بندی کے سبب گھر میں ہی رہیں۔ جمہوریت کے فروغ کے لیے ان کی کوششوں پر انہیں 1991 میں امن کے نوبل انعام سے نوازا گیا تھا۔

سن 2016 میں بعض جمہوری اداروں کو کچھ اختیارات کی منتقلی کی بھی انہوں نے نگرانی کی، تاہم میانمار میں روہنگیا مسلمانوں کے خلاف ہونے والے قتل عام اور تشدد سے انکار کی وجہ سے ان کی ساکھ جلد ہی داغدار بھی ہو گئی۔