جب تک کسی انسان کو اپنے سامنے نہ دیکھ لیا جائے اس کی صلاحیتوں کا مکمل ادراک نہیں ہو سکتا کیونکہ کتابوں ،کہا نیوں اور حکایات کی زبان میں کسی بھی انسان کا ذکر سننا کارِ دیگر است۔بڑے بڑے قد آور راہنما ، فنکار اور تخلیق کار جو پوری انسانیت کو متاثر کرتے ہیں چند حروف ان کی شخصیت کا کس طرح احاطہ کر سکتے ہیں؟حضرت یوسف علیہ السلام کے حسن و جمال کے ذکر سے تاریخ کے اوراق بھرے پڑے ہیں ۔ ہم تاریخ کے آئینہ سے حضرت یوسف علیہ السلام کے حسن و جمال کا ایک اندازہ تو لگا سکتے ہیں لیکن وہ کتنے حسین و جمیل تھے اس کو جان نہیں سکتے کیونکہ الفاظ،تشبیہات اور استعارے ان کے حسن و جمال کا مکمل احاطہ کرنے سے قاصر ہیں۔
کسی نے سچ کہا تھا کہ ایک وقت آتا ہے کہ الفاظ انسانی کیفیات کو بیان کرنے سے قاصر ہو جاتے ہیں۔ایک پہلو تو حضرت یوسف علیہ السلام کے حسن و جمال کا تھا جبکہ دوسرا پہلوان کے اعلی کردار اور شرم و حیاء کے جوہر سے تھا۔زلیخا بانو جو اپنے وقت کی حسین و جمیل خاتون تھیں اور صاحبِ اقتدار ہونے کی جہت سے سب کچھ ان کی دسترس میں تھا ۔ وہ جو چاہتیں اور جسے چاہتیں حاصل کر سکتی تھیں ۔ لیکن اس کے باوجود وہ حضرت یوسف علیہ السلام کے قلب ،روح اور جسم پر اپنا تسلط قائم کرنے میں ناکام رہیں کیونکہ حضرت یوسف علیہ السلام کا اعلی کردار ان کی راہ میں مزاحم تھا۔ حضرت یوسف علیہ السلام زلیخا بانو کی جنسی یلغار سے محض اس وجہ سے بچ گے تھے کہ انھوں نے مقفل دروازوں سے بھاگ جانے کا عملی مظاہرہ کیا تھا۔کسی بھی کام کے حصول کیلئے کوشش انتہائی ضروری ہوتی ہے ۔حضرت یوسف علیہ السلام کوکب علم تھا کہ وہ زلیخا بانو کی ہوس پرست ادائوں سے بھاگنے کا قصد کریں گے تو مقفل دروازے خود بخود کھل جائیں گے۔یہ توان کے جذبِ دروں کی سچائی تھی جس کی قوت سے سارے بند دریچے کھلتے چلے گے وگرنہ اگر وہ بے عملی کا مظاہرہ کرتے تو تاریخ بالکل مختلف ہوتی۔
انسانی رفعتوں کے حصول کیلئے ضروری ہے کہ انسان عزم کا اظہار کرے ،تگ و دو کرے اور بلند و بالا مقصدیت کا اپنا اوڑھنا بچھونا بنا ئے ۔ اگر حضرت یوسف علیہ السلام بھی بند دروازوں میں حسنِ جہاں سوز کی نگاہوں کے سامنے کھڑے رہتے تو پھر خود کو کیسے بچاپاتے؟اللہ سبحان تعالی کی رحمت اور مدد سے انھوں نے جس کردار کا مظاہرہ کیا وہ رہتی دنیا تک عصمت و حیاء اور آبرو کی مثال بن گیا۔کمزور کردار اورسطحی فکر کا کوئی بھی انسان کیا ایسا عدیم النظیر مظاہرہ کر سکتا ہے ؟ انسان کے اندر قدرت نے جس جنسِ مخالف کی کشش رکھی ہے وہ بڑوں بڑو ں کو ورغلا دیتی ہے لیکن بڑا وہی ہوتا ہے جو وقتِ آزمائش اس کشش کو جھٹک کر بلند اقدار کا مظاہرہ کرے۔(تنے پیدا کن از مشتِ غبارے ۔،۔ تنے محکم تر از سنگین حصارے۔)۔،۔
قائدِ اعظم نے قیامِ پاکستان کی جو چو مکھی جنگ لڑی تھی کوئی کتاب اس کی رفعت اور گہرائی کا کما حقہ احاطہ نہیں کر سکتی۔علامہ اقبال نے ایسے ہی تو نہیں کہا تھا کہ( مستقبل قریب میں مسلم امہ کی کشتی جن طوفانوں کی زد میں آنے والی ہے اسے صرف محمد علی جناح کی شخصیت ہی ساحلِ مراد سے ہمکنار کر سکتی ہے)حالانکہ اس وقت سیاسی افق پر قائدِ اعظم محمد علی جناح کی مخالفت اپنے عروج پر تھی اور اسی لئے انھوں نے سیاسی میدان سے کچھ سالوں کیلئے جلا وطنی اختیار کر لی تھی۔وہ چند سال لندن میں سکونت پذیر رہے تا کہ مخالفین کی ریشہ دوانیاں قدرے کم ہو سکیں اور حاسدانہ سوچ کی شمشیر کندھ ہوسکے ۔،چشمِ تصور سے دیکھیں کہ ایک ایسا وقت جس میں کانگریس، جمعیت العلمائے ہند،احرار ، خاکسار،جماعت اسلامی ،مولانا ابولکلا م آزاد اورباچہ خان جیسی قد آور شخصیات ان سے مزاحم تھیں اور مسلم لیگ انتہائی نحیف و کمزور جماعت تھی جو عوامی پذیرائی سے محروم تھی۔ایک اقبال ہی تو تھا جو اس جماعت کی پہچان تھا ۔ا ب وہی پہچان کہہ رہی تھی کہ مسلم قوم کی کشتی کا مقدر محمد علی جناح کے ساتھ منسلک ہے تو میرے دوست کچھ تو بات ہو گی ؟ کیا تھا وہ جوہرِ خوابیدہ جسے علامہ اقبال جیسے دانائے راز نے محسوس کر لیا تھا؟حالانکہ ان دونوں عظیم زعماء میں فکری لحاظ سے بعدالمشرقین تھا ۔
ایک علیحدہ اسلامی ریاست کا علمبردار تھا جبکہ دوسرا متحدہ ہندوستان کا حامی تھا ۔ قائدِ اعظم کے یہ الفاظ تاریخ کے سینے میں ہمیشہ محفوظ رہیں گے( میں سب سے پہلے نیشلنسٹ ہوں،پھر نیشلنسٹ ہوں اور آخر میں بھی نیشلنسٹ ہی ہوں)،جبکہ علامہ اقبال کا نظریہ تھا ۔ ( ایک علیحدہ اسلامی ریاست ہی ہندوستان کے مسائل کا حل ہے)رنگ و نسل اور نسلی تفاخر کا جو پہلو تہذ یبِ ہند کے پہلو میں پرورش پا کر تناو رشجر بن چکاتھا اس کا علاج سوائے اس کے اور کوئی نہیں کہ مسلما ن اپنی الگ ریاست قائم کریں۔اسی لئے تو اقبال نے ہر قسم کے سہاروں کو چھوڑ دینے کا فرمان جاری کیا تھا۔ (غبار آلود رنگ و نسب ہیں پال و پر تیرے ۔،۔ تو اے مرغِ حرم اڑنے سے پہلے پر فشاں ہو جا) ۔،۔
علامہ اقبال کو یقین تھا کہ نیشنلزم کے سارے بتوں کو خیر آباد کہنے والا محمد علی جناح ہی آخرِ کارمسلم قوم کی قیادت کا اہل ہو گا اور جب وہ اسلامی ریاست کا پرچم تھامے میدان میں نکلے گا تو پھر اس کے سامنے کوئی کھڑا نہیں ہو سکے گا )اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ انسانوں کے درمیان فکری اختلاف ہمیشہ موجود رہتا ہے لیکن بڑا انسان وہی ہوتا ہے جو بہتر رائے کے سامنے سرِ تسلیم خم کر دیتا ہے کیو نکہ یہ خود اس کی رفعتِ ذات کیلئے ناگزیر ہوتا ہے۔سچ تو یہ ہے کہ انسان کی شخصیت ،اس کا کردار ،اس کی دانش ،اس کی معاملہ فہمی،اس کی علمیت ،اس کی فراست،اس کی بصیرت،اس کی راست بازی اس کی دیانت داری ، اس کی وسیع القلبی ، اس کی دور اندیشی،اس کی دور نگاہی،اس کی سچائی،ا س کا خلوص اور اس کا عزم ہی کسی بھی انسان کی حقیقی پہچان ہوتا ہے اور وہ انہی اوصاف سے جانا اور پہچانا جاتا ہے۔فکری اصلاح تو ہر وقت ممکن ہوتی ہے لیکن اگر کوئی انسان بد دیانت، وعدہ شکن اور انسان دشمن ہوتو اس پر کیسے اعتماد کیا جا سکتا ہے؟اعتماد تو انسانی تکریم اور انسانی خدمت کی علمبردار سوچ کی حامل شخصیت پر ہی کیا جا سکتا ہے اور یہی علامہ اقبال نے کیا تھا ۔ علامہ اقبال کو یقینِ واثق تھا کہ محمد علی جناح جیسا صاحبِ کردار انسان جب بھی میرے پیش کردہ فلسفہ پر غور و عوض کریگا تووہ میری فکر کا علم تھام لے گا کیونکہ میرا نظریہ عقل و شعور اور منطق کی کسوٹی پرپورا اترتا ہے ۔ کوئی مانے یا نہ مانے لیکن حقیقت یہی ہے کہ ٤ اگست ١٩٤٧ کا تاریخی دن اقبالی فلسفہ کی صدائے باز گشت ہے۔(عقل کی منزل ہے وہ ،عشق کا حاصل ہو وہ ۔،۔ حلقہِ آفاق میںگرمی ِ محفل ہے وہ)۔،۔
کیا ہم اس ساری کیفیت کو جو دسمبر ١٩٣٠ سے قبل ہندوستانی فضا پر چھائی ہوئی تھی اس کا کما حقہ ادراک کر سکتے ہیں۔؟ بالکل نہیں ۔اس وقت مسلمان کس قد کمزور تھا،کس قدر پسا ہوا تھا،کس قدر غلامی میں گرا ہواتھا،کس قدر زنجیروں میں جکڑا ہوا تھا،کس قدر بے بس تھا،کس قدربے مایا تھا، کس قدر کم قدر تھا،کس قدر بے آسرا تھا،کس قدر مہقور تھا،کس قدر مجبور تھا،کس قدر محروم تھا،کس قدر بے سہارا تھا،اور کس قدر اوروں کے رحم و کرم پر تھا۔
کوئی شخص آج اس کا عشرِ عشیر بھی محسوس نہیں کر سکتا۔دورِ طوقِ غلامی کابہارِ آزادی سے موازنہ ممکن نہیں۔ آزادی کی مسرتیں،بہاریںاورخوشخالیاں کیا دورِ غلامی کی بے بسی کی اذیتو ں کو اسی طرح محسوس کر سکتی ہیں بالکل نہیں؟ غربت و افلاس کی ماری ہوئی قوم آج آزادی و خوشخالی کی جن نعماء سے بہرہ ور ہو ررہی ہے وہ ہمیں بے بسی کی اس داستان کی جان لے کر نہیں جا سکتیں کیونکہ آج ہم اعلی اور بہتر حالت میں ہیں۔غربت کے ایام کی داستان فارغ البالی اور خوشحالی میں کبھی متاثر کن نہیں ہوتی اور محرمیوں کا دور کبھی دردِ سر نہیں بنتا ۔ انسان کو اپنے دورِ عظمت میںیاسیت کے پل دیکھنے کی ہمت کہاں ہوتی ہے ؟بے بسی کے ایام میں جس شخصیت نے محمد علی جناح کی قیادت کا اعلان کیا تھا ،انھیں حوصلہ دیا تھا،انھیںاعتماد دیا تھاانھیں راستہ دکھایا تھا اور انھیں نظریہ دیا تھا نگاہیں اس کی عظمت کو سلام کیلئے جھک جاتی ہیںاور یہ کوئی اور نہیں بلکہ دانائے راز اقبال ہی تھا جس نے کہا تھا۔ (خدائے لم یزل کا دستِ قدت تو زباں تو ہے ۔،۔ یقین پیدا کر اے غافل کہ مغلوبِ گماں تو ہے)۔،۔