ممبئی (اصل میڈیا ڈیسک) بلبل ہند لتا منگیشکر نے ایک بار انکشاف کیا تھا کہ انہیں ’سلو پوائزن‘ دیا جارہا ہے۔
سُروں کی ملکہ بھارت کی لیجنڈری گلوکارہ لتا منگیشکر اپنے کروڑوں پرستاروں کو غم زدہ چھوڑ کر 92 برس کی عمر میں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اس دنیا سے رخصت ہوگئیں۔ لیکن کیا آپ جانتے ہیں کہ کسی نے لتا منگیشکر کو 60 کی دہائی میں جان سے مارنے کی کوشش کی تھی۔
لتا منگیشکر نے ایک انٹرویو میں انکشاف دیا تھا کہ 1963 میں وہ بہت زیادہ بیمار ہوگئی تھیں اور بعد میں معلوم ہوا کسی نے انہیں زہر دے کر مارنے کی کوشش کی تھی۔
یہ بھی پڑھیں: سُروں کی ملکہ لتا منگیشکر 92 برس کی عمر میں چل بسیں
اپنی زندگی کے اس خوفناک مرحلے کو یاد کرتے ہوئے لتا جی نے کہا تھا کہ ہم منگیشکرز اس بارے میں بات نہیں کرتے کیونکہ وہ ہماری زندگی کا خوفناک مرحلہ تھا۔ وہ 1963 کا سال تھا میں بہت کمزور محسوس کرنے لگی تھی اور بمشکل اپنے بستر سے اٹھتی تھی۔ یہاں تک کہ ایک ایسا وقت بھی آیا کہ میں خود سے ہل بھی نہیں سکتی تھی۔
اس واقعے کا ذکر کتاب ’’لتا ان ہر اون وائس‘‘ میں بھی ہے جہاں انہوں نے انکشاف کیا تھا کہ 60 کی دہائی میں، میں 3 ماہ تک بہت زیادہ بیمار رہی تھی۔ ایک دن میں بیماری کی حالت میں اٹھی کیونکہ میرے پیٹ میں بہت درد تھا اور میں نے الٹی کی وہ بہت خوفناک منظر تھا کیونکہ میں نے سبز رنگ کی الٹی کی۔
ڈاکٹر میرے گھر آئے اور اپنے ہمراہ ایکسرے مشین بھی لائے کیونکہ میں ہل نہیں پارہی تھی۔ ڈاکٹر نے میرے پیٹ کا ایکسرے کیا اور کہا کہ مجھے ’’سلو پوائزن‘‘ یعنی آہستہ آہستہ زہر دیا جارہا ہے۔
لتا جی نے مزید بتایا کہ اس انکشاف کے بعد ان کی بہن اوشا نے کچن کی ذمہ داری سنبھال لی اور ملازم بغیر تنخواہ لیے وہاں سے چلا گیا، تو ہم نے سوچا کہ کسی نے اس ملازم کو جان بوجھ کر ہمارے گھر میں پوری منصوبہ بندی کے ساتھ بھیجا تھا۔ ہمیں نہیں معلوم اس سب کے پیچھے کون تھا۔اس دوران میں 3 ماہ کے لیے بہت بیمار ہوگئی تھی۔
بعد ازاں صحت مند ہونے کے بعد لتا جی نے جو پہلا گانا گایا وہ فلم ’’20 سال بعد ‘‘ کا گانا ’’کہیں دیپ جلے کہیں دل‘‘ تھا اور اس گانے کے لیے انہیں دوسرا فلم فیئر ایوارڈ ملا تھا۔
لتا منگیشکر کا کیریئر تقریباً 7 دہائیوں پر مشتمل ہے اور بلاشبہ یہ موسیقی کا سنہری دور ہے۔ لتا جی نے اپنے کیر یئر میں مختلف زبانوں میں 30 ہزار سے زائد گانے گائے۔ ان کے پاس بھارت کا سب سے بڑا سویلین اعزاز بھارت رتنا بھی ہے۔ اس کے علاوہ وہ 1974ء سے 1991ء تک گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈ میں ریکارڈ ہولڈر کے طور پر بھی شامل رہیں۔