لیبیا (اصل میڈیا ڈیسک) وزیر اعظم عبدالحمید الدبیبہ جب گھر واپس لوٹ رہے تھے تو اس وقت ان کی گاڑی پر مبینہ طور پر حملہ کیا گیا۔ یہ واقعہ ان کی جگہ کسی دوسرے شخص کو وزیر اعظم مقرر کرنے کے لیے پارلیمنٹ میں ہونے والی ووٹنگ سے قبل پیش آیا ہے۔
لیبیا کے مقامی اور بعض بین الاقوامی میڈیا اداروں کے مطابق، ملک کے وزیر اعظم عبدالحمید الدبیبہ جمعرات کے روز علی الصبح ایک حملے میں اس وقت بال بال بچ گئے جب ان کی گاڑی پر فائرنگ کی گئی۔ ان کی کار پر کئی گولیاں لگیں۔
ایک ایسے وقت جب ملک کو کنٹرول کرنے کے لیے لیبیا کے مشرقی خطے کی پارلیمان اور الدبیبہ کی قومی اتحاد پر مبنی حکومت کے درمیان شدید رسہ کشی جاری ہے، مبینہ طور پر حملے کا یہ واقعہ پیش آیا ہے۔ اطلاعات کے مطابق حملہ آور فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے۔ واقعے کی تفتیش کے احکامات دے دیے گئے ہیں۔
خبر رساں ادارے روئٹرز نے اپنے ایک ذرائع کے حوالے سے بتایا ہے کہ یہ حملہ اس وقت ہوا جب وزیر اعظم عبدالحمید الدبیبہ صبح صبح گھر لوٹ رہے تھے۔ واضح طور پر اس واقعے کو انہیں قتل کرنے کی کوشش قرار دیا جا رہا ہے۔ بڑھتا ہوا عدم استحکام
اگر اس بات کی حتمی تصدیق ہو جاتی ہے کہ وزیر اعظم عبدالحمید کو قتل کرنے کی کوشش ہو رہی ہے تو اس سے لیبیا کا سیاسی بحران مزید وسیع ہو سکتا ہے۔ وزیر اعظم کا کہنا ہے کہ جمعرات کے روز مشرقی پارلیمنٹ میں ان کی جگہ کسی دوسرے شخص کو وزیر اعظم مقرر کرنے لیے جو ووٹ ڈالے جانے ہیں وہ اسے نظر انداز کر دیں گے۔
دریں اثنا مسلح دستوں نے حالیہ ہفتوں کے دوران دارالحکومت طرابلس میں مزید جنگجوؤں اور جنگی ساز و سامان کو جمع کیا ہے۔ اس سے یہ خدشہ بڑھ گیا ہے کہ سیاسی کشمکش لڑائی کا باعث بن سکتی ہے۔
سن 2011 میں سابق رہنما معمر قذافی کے خلاف نیٹو کی حمایت یافتہ بغاوت کے بعد سے ہی لیبیا عدم استحکام کا شکار ہے۔ اس وقت ملک
مشرق اور مغرب کے دو مختلف متحارب دھڑوں کے درمیان منقسم ہو کر رہ گیا ہے۔
مغربی ممالک کے حمایت یافتہ ایک سیاسی عمل کے ایک حصے کے طور پر اقوام متحدہ کی ثالثی کے بعد، مصراتہ شہر سے تعلق رکھنے والے ایک طاقتور تاجر عبدالحمید الدبیبہ کو گزشتہ برس فروری میں وزیر اعظم مقرر کیا گیا تھا۔ ان کی قومی اتحاد حکومت کا بنیادی کام ملک کو قومی مفاہمت کی طرف رہنمائی اور انتخابات کی نگرانی کرنا تھا۔
گزشتہ دسمبر میں ہونے والے عام انتخابات منسوخ کر دیے گئے تھے اور مشرقی پارلیمان کا کہنا ہے کہ اس برس بھی انتخابات نہیں ہو پائیں گے۔
وزیر اعظم الدیبہ نے خود انتخابات میں حصہ نہ لینے کا عہد کیا تھا تاہم انہوں نے صدارتی انتخابات میں خود امیدوار ہونے کا اعلان کر کے اپنے عہد کو توڑ دیا، اس طرح اب وہ متحد کرنے کے بجائے منقسم کرنے والی شخصیت بن گئے ہیں۔