میں جب قبر سے اٹھو گا تو دنیا کانپ جائیگی یہ الفاظ امیر تیمور کے ہیں جو اسکی قبر پر لگے ہوئے کتبے پر تحریر ہے اسے اپنے اوپر اعتماداتنا تھا کہ کسی بھی جنگ میں شکست کا تصور تک نہ کرتاجسکی نسل سے برصغیر کا پہلا مغل بادشاہ بابر بنا امیر تیمور جو ایک ہی وقت میں سفاک بھی تھا اور رحم دل بھی شائد وہ دنیا کا واحد بادشاہ تھا جو علم و فن اور آرٹ کا قدر دان ہونے کے ساتھ ساتھ ایک عظیم سلطنت کا بانی بھی تھا جسکی حکمرانی دریائے سندھ سے لیکر دریائے دجلہ تک پھیلی ہوئی تھی اس نے دنیا بھر سے عالم،فنکار،ماہر تعمیرات،شاعر،مجسمہ ساز اور مذہبی سکالرز کو سمر قند میں جمع کرکے اسے علم و ہنر کا گہوارہ بنا دیا تھا اسی دیس ازبکستان کے صدر پاکستان دورہ پر تشریف لارہے ہیں۔
دونوں ملکوں کے تعلقات تاریخی ہیں ازبک صدر کے دورہ پاکستان سے دوطرفہ تعلقات میں مزید وسعت آئیگی امید ہے پاکستان اورازبکستان کے درمیان سیاحت کے فروغ کے لئے اہم پیش رفت ہونے کے ساتھ ساتھ ویزوں کے حصول میں بھی آسانی اور جب سے میں نے اور دوستوں نے جناب طاہر انوار پاشا کی کتاب امام بخاری اور امیر تیمور کا دیس ازبکستان پڑھ رکھی ہے تب سے اس دیس کی سیر کو دل بے قرار ہے سفر نگار طاہر انوار پاشا کے قلم میں وہ تاثیر ہے کہ کتاب شروع کرنے کے بعد ختم کیے بغیر دل کو سکون نہیں ملتا اور انکے مزید سفر ناموں کا انتظار بھی رہتا ہے انکی کتاب پڑھ کر احساس ہوا ازبکستان بہت پیارا اور خوبصورت ملک ہے اور وہاں کے لوگ جتنے خوبصورت باہر سے ہیں اس سے بھی زیادہ خوبصورت اندر سے ہیں ازبکستان جسکاباضابطہ نام جمہوریہ ازبکستان ہے۔
جو وسط ایشیا خشکی سے محصور ملک ہے اس کی سرحدیں مغرب و شمال میں قازقستان، مشرق میں کرغزستان اور تاجکستان اور جنوب میں افغانستان اور ترکمانستان سے ملتی ہیں۔ یہ لیختینستائن(لخٹنشٹائن مغربی یورپ میں سوئٹزرلینڈ اور آسٹریا کے درمیان واقع ایک چھوٹا سا ملک ہے یہاں زیادہ تر آلمانی (جرمنی کی زبان) بولی جاتی ہے جس کا کل رقبہ 160.4 مربع کلومیٹر ہے اور آبادی کا تخمینہ 2008ء میں 35,375 لگایا گیاتھا ) کے بعد دنیا کا واحد ملک ہے جو چاروں طرف سے ایسے ممالک میں گھرا ہے جو خود بھی سمندر سے محروم ہیں ملک کی قومی زبان ازبک ہے جو ایک ترک زبان ہے جو ترکی اور دیگر ترک زبانوں سے ملتی جلتی ہے اسکی کل آبادی کا تقریباً 42 فیصد تاجک النسل ہیں لفظ ازبک کا مطلب حقیقی/ (اوز) اصل (بک) رہنما ہے۔
پہلی ملینیم قبل از مسیح میں ایران کے خانہ بدوش نے وسط ایشیا کی ندیوں پر آبپاشی کا نظام قائم کیا اور بخارا و سمرقند جیسے شہر آباد کیے اپنے محل وقوع کی وجہ سے یہ علاقے بہت جلد آباد ہو گئے اور چین و یورپ کے درمیان میں آمد و رفت کا سب سے اہم راستہ بن گئے جسے بعد میں شاہراہ ریشم کے نام سے جانا گیا چین و یورپ کے تجارتی راستہ ہونے کی وجہ سے یہ علاقہ کافی مالدار ہو گیا اس تجارت سے سب سے زیادہ فائدہ سوغدائی ایرانی قبیلہ کو ہوا ساتویں صدی عیسوی میں ماوراء النہر کہلائے جانے والے اس علاقے میں سب سے بڑا انقلاب اس وقت آیا جب عرب قوم نے یہاں اسلام کا پرچم لہرا دیا اور یوں یہ علاقہ اسلام کے زیر آغوش آگیا 8ویں اور نویں صدی عیسوی میں یہ علاقہ خلافت عباسیہ کے زیر حکومت تھا اور یہی زمانہ تعلیم اور ثقافت کا سنہری دور مانا جاتا ہے۔
12ویں صدی تک کئی صوبے آباد کیے جا چکے تھے ایران اور خوارزم کے علاقے کو ملا کر ماوراء النہر کو ایک بڑے صوبے میں منتقل کر دیا جو بحیرہ ارال کے جنوب تک پھیلا ہوا تھا۔ 13ویں صدی کے اوائل میں منگول کے چنگیز خان کی چنگاری یہاں بھی پہنچی اور پورے علاقہ کو تہس نہس کر دیا اور ایرانی بولنے والوں کو وسط ایشیا کے دوسرے علاقوں کی طرف دھکیل دیا۔ امیر تیمور کے زمانے میں ماوراء النہر نے پھر سے پھلنا پھولنا شروع کیا اور اس بار ا س کا مرکز سمرقند تھا۔ تیمور کے بعد یہ صوبہ کئی حصوں میں بٹ گیا اور 1510ء میں ازبیک کے قبائل نے وسط ایشیا پر قبضہ کر لیا۔ 16ویں صدی میں ازبیک میں دو مد مقابل خانیت آمنے سامنے ہوئے خانیت بخارا اور خانان خیوہ اس زمانہ میں چونکہ سمندی سفر کامیاب ہو رہا تھا لہٰذا شاہراہ ریشم زوال پزیر ہو گئی ۔ 1729ء تا 1741ء کے درمیان میں ایران کے نادر شاہ نے خانیت کو ایک علاقہ تک محدود کر دیا اس علاقہ کی زرخیزی اور تجارتی مالداری کو روس کی نظر لگ گئی خصوصا اس کی کپاس کی کھیتی ایک اہم ذریعہ تھی جس سے یہاں خوب تجارت ہوتی تھی روس نے اسی لالچ میں وسط ایشیا میں اپنی پوری فوج لگادی۔
1876ء میں روس نے تینوں خانیت پر قبضہ کر لیا اور موجودہ دور کا ازبکستان اس کی زیر حکومت آگیا اور خانیت کے اختیارات کافی حد تک محدود کر دئے گئے بیسویں صدی کا آغاز جدت پسند تحریک کاسورج لے کر نمودار ہوا چونکہ یہ تحریک 1920ء کے اوائل میں کچل دی گئی تھی لہذا فیض اللہ خوجائے جیسے علاقائی لیڈروں نے ازبکستان میں طاقت حاصل کر لی۔ 1924ء میں سویت اتحاد نے ازبک سویت سوشلسٹ ریپبلک قائم کیا جس میں موجودہ تاجکستان اور ازبکستان شامل تھے ازبکستان کی آب ہوا کافی مختلف ہے ازبکستان میں خوب سردی اور خوب گرمی پڑتی ہے گرمی کا درجہ حرارت 40 ڈگری جبکہ سردی میں درجہ حرارت 2- ڈگری سینٹی گریڈ تک رہتا ہے یہاں کی زمین متوسط بھی ہے اور کل رقبہ کا تقریباً 80 فیصد ریگستان پر مشتمل ہے یہاں کے پہاڑ سطح سمندر سے تقریباً 4500 میٹر بلند ہیں۔
ازبکستان جنوب مغربی حصہ تیان شاہ کی پہاڑیوں پر مشتل ہے اور یہ کرغیزستان اور تاجکستان تک پھیلی ہوئی ہیں اور وسط ایشیا اور چین کے مابین حد ٍفاصل کا کام کرتی ہیں۔ ازبکستان کے انتہائی شمال میں کرزل قوم نامی ریگستان ہے جو قازکستان کے جنوبی حصہ تک پھیلا ہوا ہے۔ ازبکستان کا سب سے زرخیز حصہ وادء فرغانہ ہے جس کا رقبہ 21440 مربع کلو میٹر ہے اور کرزل قوم کے مشرق میں واقع ہے جو شمال، جنوب اور مشرق کی جانب سے پہاڑ سے گھرا ہوا ہے۔ وادئی فرغانہ کا مغربی کنارہ دریائے سیحوں سے نوازا گیا ہے۔ یہ دریا ازبکستان کے شمال مشرقی علاقہ سے ہو کر گزرتی ہے،اور قازکستان سے شروع کر کرزل قوم میں ختم ہوتی ہے امید ہے کہ ازبک صدر کے دورے سے پاکستان ازبکستان تعلقات کے نئے دور کا آغاز ہو گا۔