یوکرائن (اصل میڈیا ڈیسک) گزشتہ ایک ہفتے میں ایسا کوئی دن نہیں تھا، جب کوئی اہم امریکی یا یورپی رہنما یوکرائنی دارالحکومت کییف نہ پہنچا ہو۔ ابھی حال ہی میں فرانسیسی صدر اور جرمن وزیر خارجہ نے بھی یوکرائن کے دورے کیے۔
خبر رساں اداروں کے مطابق مشرقی یوکرائن کی سرحد کے قریب ہزارہا روسی فوجیوں اور بھاری ہتھیاروں کی موجودگی کے بعد سفارتی سرگرمیوں میں نہایت تیزی دیکھی گئی جب کہ آئندہ چند روز میں گفت گو کے ایسے مزید کئی سیشن منعقد ہوں گے، جن کا مقصد روس اور مغربی دنیا کے درمیان موجود کشیدگی میں کمی ہے۔
یوکرائن میں ان دنوں عام شہری ایک جملہ بھرپور اور پرامید مسکراہٹ کے ساتھ کہتے ملتے ہیں، ”جب تک غیرملکی رہنما مذاکرات کے لیے کییف آ رہے ہیں، پوٹن یوکرائن پر کبھی حملہ نہیں کر سکتے۔‘‘
حالیہ کچھ ہفتوں میں ان سفارتی کوششوں کا ایک اہم نکتہ یہ تھا کہ کسی بھی طرح روسی عسکری کارروائی کو ٹالا جائے اور وقت حاصل کیا جائے کہ معاملہ سفارتی انداز سے نمٹ سکے۔ روس اور مغربی ممالک کے درمیان مذاکرات میں تو کوئی خاص پیش رفت نہیں دیکھی گئی، تاہم یوکرائنی دارالحکومت نے پچھلے چند روز میں برطانیہ، ترکی، پولینڈ، اور نیدرلینڈز کے رہنماؤں کی میزبانی کی۔ خبر رساں اداروں کے مطابق ڈچ وزیر اعظم مارک رُٹے کا دورہ ایک روز کے لیے اس لیے ملتوی کیا گیا تھا کہ برطانوی وزیراعظم بورس جانسن کے دورے کے لیے وقت نکالا جا سکے۔
ان تمام رہنماؤں نے یوکرائنی فوج کے لیے ہتھیاروں کی فراہمی کے وعدے کیے اور ماسکو کے لیے سخت الفاظ میں انتباہ جاری کیے۔ یوکرائنی رہنما ہمیشہ یہ شکوہ کرتے رہے ہیں کہ روس کے ساتھ کشیدگی میں اس ملک کو مغربی دنیا کی توجہ نہیں ملتی، مگر مبصرین کے مطابق لگتا یوں ہے کہ اب یوکرائن کو بے حد توجہ حاصل ہوئی ہے۔ تاہم یورپی یونین کے دو اہم ترین ممالک فرانس اور جرمنی کی پوزیشن اس بابت بہت واضح نہیں رہی۔ کییف حکومت کو خوف ہے کہ فرانس اور جرمنی یوکرائن کے ساتھ کھڑے نہیں ہوں گے اور ممکن ہے کہ وہ یوکرائن کی قیمت پر ماسکو کے ساتھ کوئی ڈیل کر لیں۔ جرمنی کے ساتھ تنازعہ
جرمن وزیر خارجہ انالینا بیئربوک ایک ماہ میں دو مرتبہ یوکرائن پہنچی ہیں۔ جرمنی کی جانب سے یوکرائن کو مہلک ہتھیاروں کی فراہمی اور روسی گیس پائپ لائن نارتھ اسٹریم ٹو پر پابندیاں عائد کرنے سے انکار کی وجہ سے دونوں ممالک کے درمیان قدرے کشیدگی پائی جاتی ہے۔ تاہم جرمن وزیرخارجہ نے اس دورے میں بھی کوئی نئے وعدےکیے اور نہ ہی کوئی نیا روڈ میپ دیا۔ تاہم انہوں نے اس عزم کا اظہار کیا کہ روس اوریوکرائن کو مذاکرات کی میز پر لایا جائے گا۔ مگر ان کے پاس اس سوال کا کوئی جواب نہیں کہ کئی برسوں سے مذاکرات میں کوئی پیش رفت نہیں ہوئی، تو اب ایسا کیا ہے کہ ایسے کوئی مذاکرات کامیاب ہو جائیں گے؟
جرمن وزیر کے اس دورے کا ایک مقصد یہ تھا کہ عوامی سطح پر یہ باور کروایا جائے کہ جرمنی یوکرائن کے ساتھ کھڑا ہے۔ اس دوران بیئربوک نے متعدد بار کہا کہ یوکرائن جرمنی پر بھروسا کر سکتا ہے۔ تاہم اس بار بھی وہ یوکرائنی عوام کو یہ بتانے میں کامیاب نہ ہوئیں کہ وہ جرمنی سے کیا توقع رکھ سکتے ہیں۔
روس کے ساتھ کشیدگی کے تناظر میں بیئربوک نے نارتھ اسٹریم ٹو گیس پائپ لائن منصوبے پر پابندیوں یا دو ٹوک انداز میں کسی دوسرے اقدام کا حوالہ دینے کے بجائے کہا کہ روس کی جانب سے کسی عسکری کارروائی کی صورت میں جرمنی روس پر ‘غیرعمومی پابندیاں‘ عائد کرے گا اور روس کو اس کی ‘بھاری قیمت‘ چکانا پڑے گی۔
بیئربوک نے جرمنی کی جانب سے یوکرائن کو ہتھیاروں کی فراہمی سے متعلق جرمن پالیسی پر کسی تبدیلی کا عندیہ نہیں دیا گوکہ جرمنی کی جانب سے یوکرائن کو دیے گئے پانچ ہزار ہیلمٹوں کا یوکرائنی میڈیا پر مسلسل مذاق اڑایا جاتا رہا ہے۔ بیئربوک نے تاہم یوکرائن کے ایک عسکری ہسپتال کا دورہ کیا، جس کے لیے جرمنی بھرپور سرمایہ فراہم کر رہا ہے اور کہا کہ جرمنی کی جانب سے یوکرائن کے لیے طبی امداد جاری رہے گی۔ یہ بات اہم ہے کہ جرمن حکومت کا موقف ہے کہ جرمنی کسی بھی عسکری تنازعے کے لیے اپنے ہتھیار فراہم نہیں کرے گا۔