روزِ اول سے اِس کرہ ارض پر دو طرح کے لوگ طلوع اور غروب ہوتے رہے ہیں اور حشر تک یہ سلسلہ اِسی طرح جاری و ساری رہے گا۔ اِن میں ایک وہ جو تاجور کہلاتے ہیں اور دوسرے وہ جو دیدہ ور ہوتے ہیں، اِن دونوں میں بنیادی فرق یہ ہوتا ہے کہ تاجور صدیوں کے غبار کی نذر ہوجاتے ہیں جبکہ دیدہ ور پیوند خاک ہوکر بھی تاریخ کے سینے پر ثبت ہوجاتے ہیں چشم فلک نے بار بار ایسا منظر دیکھا کہ کبھی جن کے سروں پر ہیرے موتیوں سے دسجے تاج روشن تھے آج ان کی قبروں کی خاک اڑ رہی ہے، جو دامن چاک نظر آتے تھے ان کے نام کی شہرت زمین و آسمان تک پھیلی ہوئی ہے۔
جو کبھی چوبداروں کے ہجوم میں چلاکرتے تھے آج ان کا کوئی نام لینے والا نہیں ہے اور جو شہروں بستیوں سے دور جنگلوں، میدانوں اور پہاڑوں میں فرش نشین پڑے رہتے تھے آج دنیا ان کی نسبت پر فخر محسوس کرتی ہے اور جن کی پیشانی پرنازک سی ایک سلوٹ سے اقتدار کے ایوانوں میں زلزلہ آجاتا تھا وہ گردش زمانہ کی نذر اِس طرح ہوئے کے تاریخ نے ان کے ناموں پر گمنامی کا کفن ڈال دیا اور جن کی جبینِ نیاز میں خالق ارض و سما کی اطاعت و محبت کے سجدے تڑپتے تھے آج ان کی چوکھٹ پر بادشاہ وقت کہنیا رگڑ تے نظر آتے ہیں۔اقتدار کی چند ساعتوں پر قابض لوگ صدیوں کے غبار میں کھو گئے اور بوریا نشین تاریخ کے ماتھے پر جھومر بن کر چمک رہے ہیں، تاریخ کی مراد ایسے عظیم لوگ کہ جس وقت کرہ ارض کے کسی گوشے میں جب بھی طلوع ہوئے ہزاروں گناہ گاروں کو صرف ایک نظر سے ہی نیکوکاروں میں شامل کرتے گئے۔
نگاہ مرد مومن سے انسانی تقدیر کا تبدیل ہوجانا کوئی افسانوی بات نہیں بلکہ تاریخ انسانی میں ہزاروں ایسے واقعات سے تاریخ کے اوراق روشن ہیں جب کسی مردمومن کی ایک نظر سے گناہ گاروں کی دنیا ہی بدل گئی، ایسے ہی عظیم ترین مرد مومن حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری بھی ہیں برصغیر پاک و ہند کی پوری تاریخ میں غریبوں نادار و بے بسوں سے محبت کرنے والا شاید ہی کوئی دوسرا انسان گزرا ہو۔برصغیر پاک و ہند کی سب سے زیادہ با اثر اورپر کشش شخصیت ، جنہوں نے ہندوستانی تاریخ کا دھارا ہی بدل ڈالا اور خون کا ایک قطرہ بہائے بغیر اپنے ورثے میں کروڑوں مسلمان چھوڑے، آپ سراپا محبت تھے اپنی اِسی ادا کی وجہ سے ہندو مسلم آپ کو غریب نواز سمجھتے ہیں آپ کی زندگی کرامت مسلسل تھی ایک دفعہ دوران سیاحت آپ سبزوار تشریف لائے ابھی چند دن ہی گزرے ہونگے کہ مقامی باشندوں کی ایک جماعت آپ کی بارگاہ میں حاضرہوئی اور درد ناک لہجے میں اپنی داستان ظلم سنائی۔سیرا لعارفین میں حامد بن فضل اللہ نے اِس واقع کو اِسطرح بیان کیا ہے۔
یہاں کا حکمران یادگار محمد ایک ظالم جابر حکمران تھا، اپنے ظلم و ستم سے لوگوں کی زندگی جہنم بنائی ہوئی تھی معمولی باتوں پر سخت سزائیں دینا اس کا شیوہ تھا اپنے ظلم و تکبر میں اِس حد تک بڑھ گیا تھا کہ صحابہ کرام سے بغض و عدات رکھتا تھااِن مقدس ہستیوں کی شان میں مسلسل بے ادبی اور گستاخیاں کرتا جن لوگوں کے نام صحابہ کرام کے ناموں پررکھے گئے تھے انہیں مختلف بہانوں سے سخت سزائیں دیتا، اس نے اپنی عیاشی کے لیے شہر سے باہر ایک باغ بنایا تھا جسے وہ جنت کہتا تھا یہاں شراب کباب اور رقص و سرور کی محفلیں سجاتا خوبصورت عورتیں شراب پلاتیں، ایک دن حضرت خواجہ معین الدین اِس باغ میں داخل ہوئے یادگار کے حوض میں غسل کیا دو رکعت نماز ادا کی اور تلاوت کلام پاک میں مشغول ہوگئے اِسی دوران یادگار کے ملازم کی نظر آپ پر پڑی تو وہ فوری آپ کے پاس آیا اور منت کی کہ آپ یہاں سے چلے جائیں یادگار بہت ظالم ہے اس نے آپ کو دیکھ لیا تو قیامت ٹوٹ پڑیگی، حضرت غریب نواز نے اس کی باتوں پر دھیان نہ دیا اور اسے کہا تم درخت کے نیچے بیٹھ جا کچھ نہیں ہوتا۔
اِسی دوران یاد گار کے کچھ اور ملازم بھی آگئے انہوں نے حضرت خواجہ سے پوچھنا چا ہا کہ آپ اِس باغ میں کیسے آگئے لیکن آپ کے جلال معرفت کی تاب نہ لاسکے کہ ان کی زبانیں گنگ ہو گئیں لہذا چپ چاپ حوض کے کنارے قالین بچھائے اور ان پر شراب کے برتن رکھے گئے اور پھر تھوڑی دیر کے بعدبد کرداریادگار اپنے مصاحبوں کے ہمراہ باغ میں آپہنچا حضرت خواجہ معین الدین کو دیکھ کراپنے ملازموں پر برس پڑا یہ کون ہیں جو ہمارے عشرت کدے میں داخل ہو گئے ہیں، خوف و دہشت سے ملازموں کے جسم تھر تھر کانپ رہے تھے انہیں اپنا بھیانک انجام نظر آرہا تھا ملازموں کی حالت زار دیکھ کر شہنشاہ اجمیر اٹھے اوریادگار کے سامنے جاکر بولے میں اپنی مرضی سے یہاں آیا ہوں اور مجھے کسی سے اجازت لینے کی ضرورت نہیں ہے۔تیرے یہ ملازم بے قصور ہیں اِن پر ظلم مت کر ، یادگارکی نظریں جیسے ہی آپ کی پرجلال نظروں سے ٹکرائیں تو آپ کے جلالِ معرفت کی تاب نہ لاسکا بولنا چاہا لیکن قوت گویائی کھو بیٹھااس کے ملازم بھی سنگی مجسموں کی طرح بے حس و حرکت کھڑے تھے، اور پھر خواجہ معین الدین نے ایک خاص نگاہ ِ کرم سے یادگار کو دیکھا ایک بجلی چمکی جو یادگار کی روح کے عمیق ترین گوشوں کو منور کر گئی۔
یادگار تاب نہ لاسکا لڑکھڑایا اور بے جان بت کی طرح زمین پر گر گیا اور بے ہوش ہو گیا یادگار کے بیہوش ہوتے ہی اس کے ملازموں اور مصاحبوں نے بھی عقیدت و احترام سے اپنے سر جھکا دئیے اب حضرت خواجہ نے ملازم سے کہا حوض کا پانی لے کر اِس کے منہ پرچھڑکو آپ کے حکم پر ملازم حرکت میں آیا اور پانی لے کر یادگار کے منہ پر چھڑکنا شروع کیا، حضرت خواجہ کے حکم سے پانی کی چند بوندوں کے پڑھنے سے ہی یادگار ہوش میں آگیا۔اس کا جسم نیم جان ہو چکا تھا اس نے پوری قوت سے اٹھنے کی کوشش کی لیکن اٹھ نہ سکا آخر خود کو گھسیٹ کر اپنا سر حضرت خواجہ کے قدموں پر رکھ دیا۔
شہنشاہ ہند کی پر جلال آواز گونجی کیا تو اپنے گناہوں، ظلم اور عقائد سے تائب ہوا؟ یادگار کی لرزتی آواز ابھری ہاں سرکار میں اپنی حماقتوں اور عقائد سے تائب ہوا حضرت آپ کی نظر سے میرا سینہ اور روح روشن ہوگئی، خدا کی قسم تمام اصحاب رسول ۖ میرے لیے بہت قابل احترام ہیں ان کے قدموں سے لپٹی خاک میری آنکھوں کا سرمہ ہے یادگار عقیدت بھرے انداز سے صحابہ کرام کی شان اور عظمت کا اعتراف کر رہا تھا، خواجہ غریب نواز آگے بڑھے اس کی پشت پر اپنا دست شفقت رکھا ظالم یادگار اب لرزتے قدموں سے کھڑا ہوگیاعقیدت سے اس کی نظریں جھکی ہوئی تھیں، خواجہ غریب نواز نے اسے حکم دیا وضو کرے دو رکعت نماز ادا کرے یادگار کی دنیا بدل چکی تھی، پھر جب شہنشاہ اجمیر باغ سے رخصت ہونے لگے تو یادگار نے دامن پکڑ کر التجا کی کہ اسے ہمیشہ کے لیے غلامی کا شرف بخشا جائے حضرت خواجہ سرکار نے اسے بیت کیا ، یادگار کا ہاتھ جیسے ہی خواجہ کے ہاتھ میں آیا دنیا ہی بدل گئی ساری دولت آپ کے قدموں میں ڈھیر کردی تو شہنشاہ اجمیر نے حکم دیا یہ ساری دولت ان لوگوں میں تقسیم کردو جو تیرے ظلم و ستم کا شکار ہوئے یادگار نے کھڑے کھڑے ساری دولت تقسیم کردی، غلاموں،نوکروں اور کنیزوں کو آزاد کردیا، یادگار ساری زندگی آپ کے قدموں میں گزارنا چاہتا تھا مگر حضرت خواجہ نے اسی مقام پر لوگوں کی رشد و ہدایت کے لیے اسے مقرر کیا اور پھر چشم آسماں نے یہ منظر دیکھا کل تک جو خود گمراہ تھا آج وہی لوگوں کو ہدایت کے لیے بلارہا تھا۔شہنشاہ اجمیر کی ایک نظر نے یادگار کی زندگی بدل ڈالی۔
کوئی اندازہ کر سکتا ہے اس کے زور بازو کا نگاہ مرد مومن سے بدل جاتی ہیں تقدیریں