ایک نہتی و غیرت ایمانی کا مظاہرہ کرنے والی بھارتی ریاست کر ناٹک کی باحجاب طالبہ کی دہشت گردی کی علامت زعفرانی رومال اوڑھے آر ایس ایس کے غنڈوں کے سامنے کلمہ حق کہنے کی ویڈیو وائرل ہوئی کفریہ کلمات کے سامنے نعرہ تکبیر لگانے کلمہ حق کہنے کی ویڈیو نے خوابیدہ امت مسلمہ کو جھنجوڑ کر رکھ دیا ہے تو دوسری جانب وطن عزیز میں ہر کوئی اس طالبہ کے جوش ایمانی کو تحسین پیش کرنے میں سبقت لیجانے میں مصروف ہے لیکن یہ کیوں بھول گئے ہیں اس بہادر بیٹی کا تعلق ہندوستان سے ہے ۔ اور دوسرے ملک پر توجہ مرکوز کرنے کے بجائے ہمیں اپنی درسگاہوں میں تعلیم حاصل کرنے والی طالبات کو بھی مد نظر رکھنا ہو گا۔
جہاں مغربی لباس میں ملبوس ہماری بیٹیاں سب کی نظروں کا نشانہ بنتی ہیں اور اگر کوئی ان کالجوں ، یونیورسٹیوں میں سر پر ڈوپٹہ یا حجاب سے چہرہ ڈھانپنے کی بات ہو تو اسے دقیا نوسی قرار دیتے ہوئے ان تعلیمی اداروں سے دھکے دیکر نکال دیا جائے گا ۔ جبکہ بھارت کے مسلم لیڈر اسد الدین اویسی نے تو برملا کہہ دیا ہے کہ یہ ان کا اندورنی معاملہ ہے۔ یعنی انہوں نے صاف لفظوں میں ہمیں تنبیہ کی ہے کہ ہم ان سے دور رہیں ۔ وہ عورت جس کی ایک آواز یا حجاج ، یا حجاج پر حجاج بن یوسف نے محمد بن قاسم کو ظالم بادشاہ راجہ داہر کی قید سے چھڑانے کیلئے محمد بن قاسم کو بھیجا ۔آج ہم کیا کر رہے ہیں ۔ سوشل میڈیا ، فیس بک ، انسٹا گرام کے زریعے دشمنان اسلام کی سر کوبی کرنے چلے ہیں اور اسے جہاد کا نام دیتے ہیں ۔
اس وقت سوشل میڈیا پر اس جرات مند طالبہ کی ویڈیو کی بھر مار ہے ۔ حسب معمول دو چار دن اس کا اثر رہے گا اور پھر مسلمانان عالم لمبی تان کر سو جائیں گے ۔ مقبوضہ کشمیر میں فاشسٹ مودی کی درندہ صفت افواج نے بربریت و وحشت کی انتہا کر رکھی ہے ۔ وہاں پر سات سال کی بچی سے لیکر ستر سالہ مسلمان کشمیری عورت کی عزت پامال کی جا رہیں ۔ کنن پوشپورہ اور کٹھوعہ سانحہ ہندو برہمن کی درندگی کی بد ترین مثالیں ہیں ۔دوسال کا عرصہ بیت گیا ہے اور کشمیری بھارتی فوج کے محاصرے میں ہیں ۔سرچ آپریشن کی آڑ میں گھروں میں چادر اور چار دیواری کا تقدس پامال کرتے ہوئے عزت مآب مظلوم و بے بس کشمیری بہنوں ، بیٹیوں اور مائوں کی ان کے گھر والوں کے سامنے عصمتیں تار تار کی جارہی ہیں ۔ میر ا سوال ہے کہ اس پر ہمارا میڈیا کیوں نہیں چیختا ؟ کیوں مسلم حکمرانوں نے چپ سادھ رکھی ہیں ؟ دنیا کے سوئے ہوئے ضمیر کو جگانے کی کوششیں کیوں نہیں کی جاتی؟ برما میں جس طرح مسلمان خواتین کے ساتھ انسانیت سوز سلوک کیا گیا اس پر ہم محو تماشا رہیں اور آج بھی میانمار سے بیدخل کی گئیں مسلمان عورتیں کسی محمد بن قاسم کے انتظار میں ہیں جو ان کے ننگے سروں پر چادریں ڈال سکیں ۔
امریکہ و یورپ سے لیکر بھارت تک پوری دنیا میں اسلاموو فوبیا کا جادو سر چڑھ کر بول رہا ہے ۔ ہنود و یہود گٹھ جوڑ کی اسلام و مسلمانوں کے خلاف سازشیں عروج پر ہیں ۔ مسلمان اپنی شناخت کے بحران سے دو چار ہیں ۔ منظم منصوبہ بندی کے تحت مسلم عورتوں سے ان کا دینی تشخص چھینا جا رہا ہے ۔ جس کی شروعات فرانس سے ہوئی ۔ فرانس جیسے یورپی ملک میں حجاب پر پابندی عائد کرنے کے ساتھ ساتھ مسجدوں پر تالا لگائے جا رہے ہیں ۔ اس وقت ہالینڈ ، سپین ،ڈنمارک سمیت پورے یورپ میں وہاں پر بسنے والی مسل اقلیت پر عرصہ حیات تنگ کر دیا گیا ہے ۔ سر عام مسلمان عورتوں کے حجاب چھیننے اور ان پر تشدد کے واقعات عام ہو چکے ہیں ۔ اور بھارت میں ہندو انتہا پسند بی جے پی کے بر سر اقتدار آنے کے بعد سے باقاعدہ طور پر سب سے بڑی مسلم اقلیت کو دیوار سے لگانے کی سازش رچی گئی ہے ۔
گئو ذبیحہ پر پابندی ، ماب لیچنگ اور مسلم خواتین کو ہراساں کرنے کی مہم میں تیزی آگئی ہے ۔ مسلم طالبات کو کلاس روم میں حجاب پہن کر آنے پر پابندی نے انڈیا کا بھیانک چہرہ عیاں کر دیا ہے ۔ایسے نفرت انگیز واقعات کے زریعے بی جے پی ریاستی الیکشن جیتا چاہتی ہے ۔جبکہ بھارتی انصاف پر بھی آرایس ایس کا پہرہ ہے یہاں کی عدالتوں نے حجاب معاملے پر سماعت سے انکار کر دیا یہ ہے سیکولر بھارت جس کے بھگوا وزیر اعظم نے سیکولر ازم کے تابوت میں آخری کیل ٹھونک دی ہے ۔ افسوس بھارتی وزیراعظم جو مسلم خواتین کا تین طلاق کے حوالے سے بہت درد تھا۔
آج وہ بھی خاموش ہے۔تازہ اعدادوشمار کے مطابق بھارت میں گزشتہ دس برسوں میں 44 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ بے حرمتی کی واقعات زیادہ تر واقعات مسلم و دلت خواتین کے ساتھ پیش آتے ہیں۔نیچی ذات کی عورتیں بھی محفوظ نہیں رہئیں۔ ہر روز اوسطاً87 واقعات زیادتی کے درج ہوتے ہیں۔ آج ایک طرف چیختی،چلاتی عورتوں،سسکتی، بلکتی دوشیزاؤوں، معصوم ونابالغ بچیوں کے دامن عفت کو تار تار کردیاجاتاہے اوردوسری طرف رسمی تعزیتی الفاظ اور روایتی قانونی کارروائی کے علاوہ کوئی دادرسی کے لئے تیارنہیں ہوتا۔دراصل آر ایس ایس کا بنیادی ایجنڈا ہندتوا کا فروغ اور ہندو مذہب کی تشہیر ہے ، اس کے عزائم میں سر فہرست ہندوستان کو ہند وراشٹر بنانا اور تمام شہریوں کو ہندو مذہب سے جوڑناہے۔ہندوستان کے آئین پر آر ایس ایس کو کبھی بھروسہ نہیں رہااور نہ ہی اس نے اسے تسلیم کیا ہے۔
آر ایس ایس کا بنیادی ایجنڈا ہندو راشٹر کا قیام ہے۔اسی مقصد کو پایہ تکمیل تک پہونچانے کیلئے آر ایس ہندو مت کو ایک مذہب کے بجائے ایک تہذیب قرار دے رہی ہے اور تمام ہندوستانیوں کو اسے جوڑ رہی ہے تاکہ ہندو راشٹر کا راستہ صاف ہوجائے ، اس مشن اور مقصد پر کوئی اعتراض نہ کیاجائے ،کوئی اس پر سوال نہ اٹھائے اور ملک ایک سیکولر اسٹیٹ کے بجائے مذہبی ریاست میں تبدیل ہوجائے۔پورے بھارت کی ہندو انتہا پسند تنظیموں کی جانب سے مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ پورے ہندوستان میں جو دکانیں، علاقے، ہوٹل، پارک یا تمام مقامات مسلمانوں کے نام پر ہیں، انھیں تبدیل کر دیا جائے۔ ہندو دہشتگرد تنظیم ویشو ہندو پریشد کی جانب سے بھارتی مسلمانوں کو الٹی میٹم دیا ہے کہ وہ مسلمان نام والے تمام کاروبار کے نام تبدیل کر دیں۔ اقتدار میں آنے سے پہلے ہی آر ایس ایس اور بی جے پی کے منشور میں یہ وعدہ شامل تھا کہ ان کے اقتدار میں آنے کی صورت میں پورے بھارت سے اسلام اور مسلمانوں کو مکمل طور پر ختم کر دیا جائے۔