یوکرائنی سرحد سے فوج کی واپسی کا روس کا دعویٰ جھوٹا، امریکا

 Biden and Scholz

Biden and Scholz

امریکا (اصل میڈیا ڈیسک) امریکا کا کہنا ہے کہ یوکرائن کی سرحد سے اپنی فوج واپس بلانے کا روس کا دعویٰ ‘جھوٹا’ ہے۔ اس کے برعکس حالیہ دنوں میں سات ہزار مزید روسی فوج وہاں پہنچ چکے ہیں اور ماسکو یوکرائن پر حملہ کرنے کے لیے جھوٹ کا سہارا لے سکتا ہے۔

یوکرائن کے بحران کو ختم کرنے کے لیے جرمن چانسلر اولاف شولس اور امریکی صدر جو بائیڈن نے بدھ کے روز ٹیلی فون پر تفصیلی گفتگو کی۔ دونوں رہنماؤں نے روسی صدر ولادیمیر پوٹن سے ایک بار پھر مطالبہ کیا کہ وہ یوکرائن کی سرحد کے قریب کشیدگی کو ختم کرنے کے لیے اقدامات کریں۔

جرمن حکومت کے ترجمان نے کہا کہ بائیڈن اور شولس کا کہنا تھا کہ یوکرائن میں صورت حال انتہائی سنگین ہے اور وہاں اب بھی روسی فوجی جارحیت کا خطرہ برقرار ہے۔ ترجمان نے مزید کہا کہ دونوں رہنماؤں نے کشیدگی کو ختم کرنے کے لیے حقیقی اقدامات پر زور دیا۔

قبل ازیں روس کی وزارت دفاع نے کہا تھا کہ اس کی افواج یوکرائن کے قریب فوجی مشقوں میں حصہ لینے کے بعد واپس لوٹ رہی ہیں۔ اس نے ایک ویڈیو بھی جاری کی جس میں ٹینکوں، بھاری ہتھیاروں اور دیگر فوجی سازو سامان کو کریمیا سے واپس ہوتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔

مغربی ملکوں کے سفارت کاروں نے فوج کی واپسی کے روسی دعوے کی تردید کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ماسکو نے اپنے دعوی کے تائید میں کوئی ٹھوس ثبوت نہیں دیا۔

ادھر نیٹو کے کمانڈر نئی فوجی یونٹ تیار کرنے کے لیے منصوبہ بنا رہے ہیں۔ ان افواج کو بلغاریہ، رومانیہ، ہنگری اور سلوواکیہ میں تعینات کیا جا سکتا ہے۔

اس دوران وائٹ ہاوس کے ایک اعلی سطحی امریکی افسر کا کہنا تھا کہ ایسی اطلاعات ہیں کہ روس یوکرائن پر کسی بھی لمحے فوجی کارروائی کو جائز ٹھہرانے کے لیے جھوٹے دعوے کرسکتا ہے۔ انہوں نے کہا مشرقی یوکرائن کے ڈونباس خطے میں ممکنہ اشتعال انگیزی اس کی ایک مثال ہے۔

امریکی افسر نے مزید کہا کہ روسی ایسے بے بنیاد دعوے بھی کرسکتے ہیں کہ امریکا اور یوکرائن بائیولوجیکل یا کیمیاوی ہتھیار تیار کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا، “ہم یہ نہیں بتا سکتے کہ ماسکو کس طرح کے بے بنیاد دعوے کرے گا لیکن ہمیں امید ہے کہ دنیا اس کے لیے تیار ہے۔” انہوں نے مزید کہا، “کسی کو بھی ایسے دعوؤں پر یقین نہیں کرنا چاہیے۔ ”

دونوں رہنماوں نے روسی صدر پوٹن کے اس بیان کا خیر مقدم کیا کہ بحران کو حل کرنے کے لیے سفارتی کوششیں جاری رہنا چاہییں۔

بائیڈن اور شولس اس بات پر بھی متفق تھے کہ منسک امن معاہدے کا نفاذ اور یوکرائن، روس، جرمنی اور فرانس کے درمیان نارمنڈی فارمیٹ بات چیت کافی اہم ہے۔

بائیڈن اور شولس نے کہا کہ روس کو کشیدگی کو کم کرنے کے لیے ٹھوس اقدامات کرنے چاہییں۔ انہوں نے ٹرانس اٹلانٹک کوآرڈینیشن کی اہمیت پر بھی زور دیا۔

دریں اثنا اسٹونیا کی انٹلیجنس کے مطابق فوج کے دس جنگی گروپ یوکرائنی سرحد کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ اسٹونیا کے انٹلیجنس افسر مک مارن کا کہنا ہے کہ وہاں پہلے سے ہی تقریباً ایک لاکھ ستر ہزار فوجی تعینات ہیں۔

مارن کا مزید کہنا تھا کہ یوکرائن پر حملے میں میزائلوں سے بمباری اور اہم علاقوں پر قبضہ شامل ہے۔ انہوں نے کہا، “جنگ کی دھمکی پوٹن کی پالیسی کا اصل آلہ بن گیا ہے۔”