روسی صدر پوٹن نے جوہری مشقوں کا آغاز کر دیا

Russian Army

Russian Army

روس (اصل میڈیا ڈیسک) روسی صدر ولادیمیر پوٹن نے ہفتہ انیس فروری کو جوہری حملے کی صلاحیت کے حامل بیلسٹک اور کروز میزائلوں کے تجربات شروع کر دیے جب کہ ایک ہائپرسونک میزائل کی بھی تجرباتی لانچنگ کی گئی۔

ایک ایسے موقع پر جب مغربی ممالک کی جانب سے روس کو خبردار کیا گیا ہے کہ وہ طاقت کے زور پر ملکی سرحدوں میں کسی بھی تبدیلی کی کوشش سے باز رہے، روس نے جوہری میزائلوں کے تجربات کا آغاز کر دیا ہے۔ مغربی ممالک کا الزام ہے کہ روس یوکرائن پر حملے کی تیاری کر رہا ہے۔ روس کی ایک لاکھ سے زائد فوج یوکرائنی سرحد پر موجود ہے تاہم روس ان الزامات کی تردید کرتا ہے۔

میونخ میں سکیورٹی کانفرنس کے موقع پر نائب امریکی صدر کملا ہیرس نے دو ٹوک الفاظ میں کہا کہ اگر روسی فوج کسی بھی قسم کی پیش قدمی کرتی ہے، تو نیٹو کے مشرقی یورپی بازو میں فوجی موجودگی بڑھا دی جائے گی جب کہ روس پر سخت ترین پابندیاں عائد کر دی جائیں گی۔ کملا ہیرس کا کہنا تھا، ”قومی سرحدیں طاقت کے زور پر کسی بھی صورت تبدیل نہیں ہونا چاہییں۔‘‘ انہوں نے مزید کہا، ”ہم نے اقتصادی سطح پر اقدامات کی تیاری کر لی ہے، جو فوری، شدید اور منظم ہوں گے۔ ان میں روس کے مالیاتی اداروں اور کلیدی صنعتوں کو ہدف بنایا جائے گا۔‘‘
جوہری صلاحیت والے میزائلوں کے تجربات

ہفتے کے روز صدر ولادیمیر پوٹن نے کریملن سے روسی جوہری میزائلوں والی تجرباتی فوجی مشق کا آغاز کیا۔ ماسکو حکومت کے ترجمان دیمیتری پیسکوف نے جوہری مشقوں کے آغاز کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ ان کا مقصد اسٹریٹیجک جوہری ہتھیاروں کے حوالے سے روسی تیاری کو جانچنا تھا۔

کریملن سے روسی صدر پوٹن نے جب اسٹریٹیجک جوہری میزائل آزمائش کے لیے لانچ کیے، تو بتایا گیا کہ اس موقع پر بیلاروس کے صدر الیکسانڈر لوکاشنیکو بھی صدر پوٹن کے ساتھ موجود تھے۔ ماسکو حکومت کے مطابق روسی فوج نے بیلسٹک اور کروز میزائل داغے جب کہ ایک ہائپرسونک میزائل کا کامیاب تجربہ بھی کیا گیا۔

جنوبی جرمن شہر میونخ میں عالمی سکیورٹی کانفرنس میں شریک جرمن چانسلر اولاف شولس نے روس کو متنبہ کیا کہ یوکرائن پر کوئی بھی روسی حملہ ایک ‘سنگین غلطی‘ ہو گا۔ انہوں نے کہا کہ ایسی کسی کارروائی کی انتہائی بھاری سیاسی، اقتصادی اور جیوسٹریٹیجک قیمت چکانا ہو گی۔

میونخ سکیورٹی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے شولس نے کہا کہ یوکرائنی سرحد پر ایک لاکھ سے زائد روسی فوجیوں کی موجودگی بے وجہ ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ نیٹو میں یوکرائن کی شمولیت ایجنڈے پر بھی نہیں لیکن روس اسے ایک اہم مسئلے کے طور پر پیش کر رہا ہے۔ تاہم شولس نے کہا کہ اس کے باوجود مغربی دنیا نے روس کے ساتھ سکیورٹی مطالبات کے حوالے سے بات چیت کے لیے رضامندی دکھائی ہے۔