اسلام کی بیٹی مسکان ہندو انتہا پسندوں کے سامنے نعرہ تکبیر اللہ اکبر کی صدا بلند کرتی ہوئی جب کالج کیمپس میں داخل ہورہی تھی تو جنگ بدروحنین کی یاد تازہ ہوگئی کہ کثیرتعداد کی کوئی حقیقت نہیں ہوتی ، دل میں ایمانی جذبہ اور دین اسلام کی محبت ہو تو جھنڈ کے جھنڈ بھی کیڑے مکوڑے دکھتے ہیں اور تن تنہابھی میدان میں آنا ممکن ہی نہیں بل کہ آسان وسہل ہوجاتاہے۔مسکان !! نے واقعی یہ ثابت کردیا ہے کہ آج بھی حضرت سمیہ اور سلمی کا دامن تھامے ہوئی ہیں۔یہ کارنامہ صرف حجابی لڑائی نہیں ہے ، بلکہ یہ ایک انقلابی چیلنج ہے، اس کے حوصلے نے حجاب کو عار سمجھنے والوں کو بہ خوبی سمجھادیا ہے کہ یہ عار نہیں ،بلکہ یہ مسلمان عورتوں کیلئے باعث صدافتخار ہے،اس میں ذلت نہیں ، عزت کا سامان ہے۔ ملت اسلامیہ کی اس بیٹی نے تاریخ رقم کر دی ہے۔
مذہب اسلام نے عورتوں کے لیے جو پردے کا حکم دیا ہے تو اس پردے کو طبیعت کی روشنی میں نہیں بلکہ شریعت کی روشنی میں نافذ کیا ہے اس کی ایک خاص وجہ ہے بھی ہے کہ مذہب اسلام نے عورت کو اتنا بلند اور باوقار بنایا ہے کہ دوسرے کسی مذہب میں عورتوں کو وہ مقام و مرتبہ نہیں دیا گیا ہے،، عورت بیٹی کی شکل میں ہے تو اس کی بہترین تعلیم و تربیت اور شادی کرنے پر باپ کے لیے جنت کی ضمانت، عورت بیوی بن گئی تو اس کے منہ میں ایک لقمہ ڈالنے پر شوہر کے لیے نیکی، عورت ماں بن گئی تو اس کے قدموں تلے جنت،، ماں اپنے بیٹے کے لیے دل سے دعا کرے تو اس کی کامیابی کی ضمانت، حضرت ہاجرہ صفا و مروہ پر دوڑ لگادیں تو حج و عمرہ کرنے والی ہر عورت کے لیے دوڑ نہ لگانے کی چھوٹ یعنی ان کا دوڑنا ہر عورت کا دوڑنا،، حضرت خدیجة الکبریٰ رضی اللہ عنہا نے خود نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں نکاح کا پیغام بھیجا تو اللہ تعالیٰ نے عورتوں کو اتنا باوقار اور بااختیار بنا دیا کہ چاہے کوئی کتنا ہی بڑا پیر،ولی، امام، محدث، مناظر، مفکر،مقرر ہی کیوں نہ ہو۔
اسے نکاح کرنے اور نکاح پڑھانے سے پہلے عورت سے اجازت لینی ہوگی،، کیونکہ عورت کی اجازت کے بغیر نکاح ہو ہی نہیں سکتا۔ غرضیکہ مذہب اسلام نے عورت کو بیش قیمتی خزانہ بنایا ہے تو اب ظاہر سی بات ہے کہ خزانے کی حفاظت ضروری ہے تاکہ کسی کی بری نظر نہ لگے اور ہر قیمتی چیز پردے میں رکھی جاتی ہے اس پر لحاف چڑھایا جاتا ہے اب احساس کرنا نہ کرنا ہمارے اوپر منحصر ہے مگر جزا اور سزا یہ اللہ کے اختیار میں ہے اور وہ پورا پورا انصاف کرنے والا ہے۔ سلام کی ایسی بہادر بیٹی کو سلام، جس نے پوری دنیا کو پیغام دیا کہ شریعت کے فیصلے پر عملدرآمد کرو اور ثابت قدم رہو چاہے تمہیں حضرت سمیہ کی طرح ظلم و ستم ہی کیوں نہ سہنا پڑے، امام مالک و امام حنبل رحمہم اللہ کی طرح کوڑوں کی سزا ہی کیوں نہ کھانا پڑے،، اور یاد رکھیں عورتوں کے لیے پردے کا حکم شریعت نے دیا ہے۔
وہ اسلام کی حقانیت اور دنیا میں بہت بڑے اسلامی شعور کی آگاہی کے حوالے سے انقلاب کی جانب اشارہ ہے کیونکہ جو حجاب میں عورت کو تحفظ اور مقام حاصل ہے وہ کسی اور لباس میں ممکن نہیں اسی لئے دنیا اس مسلم کمیونٹی سے تعلق رکھنے والی بے باک نڈر بیٹی کے طرزعمل سے سبق سیکھ رہی ہے کہ عصمت کی حفاظت بھی فرض عین ہے۔دنیا میں بسنے والی بے دین، بے حیا خواتین جو کلبوں، محفلوں، شراب کے اڈوں، تھیٹرز، جوئے، بدقماشی اور بدنام زمانہ فحاشی کے اڈوں پر جسم فروشی کے مکروہ فعل کی مرتکب ہوتی ہیں یا ڈانسر بن کر عریانی کا مظاہرہ کرتی ہیں ان کے لئے لمحہ فکریہ ہے۔ بلاشبہ مسکان خان کے اس عمل سے پوری دنیا کے مسلمانوں اور عالمی برادری کی توجہ بھارت کی جانب مرکوز ہو گئی ہے جہاں مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کے ساتھ غیر انسانی سلوک روز کا معمول بن چکا ہے اور مسکان خان کے اللہ اکبر کے نعرے نے تمام عالم اسلام کو تازہ دم کر دیا ہے۔
حجاب کے لئے ہم اتنی جدوجہد کررہے ہیں قابل تعریف ہے۔ اب ہماری لڑکیوں کو اس بات کو یقینی بنانا ہوگا کہ ان کا حجاب واقعی حجاب ہو۔ ورنہ اکثر فیشن ڈیزائنر حجاب اور برقعوں نے بے حجابی کو بڑھاوا دیا۔ برقعہ نسوانی حسن کی حفاظت اور اس کے خدوخال کو چھپانے کے لئے ہے۔ نمائش کے لئے نہیں۔مسلمانوں کے حجاب کے خلاف یہ تحریک نئی ہے نا یہ نفرت آج کی۔ اس سے پہلے بھی کئی ملکوں میں طالبات کے حجاب پر پابندی کو باقاعدہ سرکاری قوانین میں شامل کیا گیا جس میں فرانس سرفہرست ہے وہاں تو سکارف یا حجاب پہننے والی خواتین کو بھاری جرمانے بھی عائد کیے گئے۔
مذہبی مقامات اور مذہبی علامتوں کے حوالے سے سیکولر ملک فرانس ایک عرصے سے تنازعات کا شکار ہے اور یورپ کی سب سے بڑی مسلم اقلیت فرانس میں ہی رہائش پذیر ہے۔فرانس نے 2004 ء میں سرکاری سکولوں میں اسلامی اسکارف پہننے پر پابندی عائد کردی تھی، 2010 ء میں اس نے گلیوں، پارکوں، پبلک ٹرانسپورٹ اور انتظامی عمارتوں جیسے عوامی مقامات پر نقاب کرنے پر مکمل پابندی عائد کردی تھی۔مگر اللہ اکبر کی شان دیکھیں کہ دو سال پہلے کرونا وبا سے جو تباہی سامنے آئی اسی ملک میں ماسک نہ پہننے والوں کو بھاری جرمانے عائد کیے گئے۔ مسلمان عورتوں کے نقاب کو اتروانے کا کیا نتیجہ ہوا آخر مرد اور عورتیں سب منہ چھپائے پھرتے ہیں۔اس لیے بھارت میں جو کچھ ہورہا ہے وہ عنقریب اس کی اپنی تباہی کا پیش خیمہ ہوگا وہاں راہ چلتی لڑکیوں کے ساتھ ہونے والے ریپ کیسز میں ہونے والا اضافہ اور ان کے اندر بڑھتا ہوا عدم تحفظ کا احساس، طبقاتی ناہمواری کی سیاہ رات اب ختم ہونے کو ہے۔ ایک دن اس کی حکومت مجبور ہوجائے گی کہ حجاب پہننا تمام مسلم و غیر مسلم خواتین کے لیے لازمی قرار دیدے۔