یوکرین (اصل میڈیا ڈیسک) یورپی یونین ایک غیر معمولی اقدام کے تحت یوکرین کو ہتھیاروں، اسلحے کی خریداری اور ترسیل کے لیے مالی مدد فراہم کر رہی ہے۔ لیکن یہ ہتھیار یوکرین تک کیسے پہنچیں گے؟
یورپی یونین نے یوکرین کے لیے جنگی ہتھیاروں کی خاطر 450 ملین یورومختص کیے ہیں۔ اس جنگی ساز و سامان میں یوکرینی مسلح افواج کے لیے فضائی دفاعی نظام، ٹینک شکن ہتھیار، گولہ بارود اور دیگر فوجی ساز و سامان شامل ہے۔ مزید 50 ملین یورو ایندھن، حفاظتی سامان، ہیلمٹوں اور طبی امدادی سامان کی فراہمی پر خرچ کیے جائیں گے۔
چونکہ یورپی یونین کا قانون اسے اپنے عمومی بجٹ کو فوجی مقاصد کے لیے استعمال کرنے کی اجازت نہیں دیتا، اس لیے یہ بلاک ’یورپی پیس فسیلیٹی‘ نامی ایک طریقہ کار کو فعال کر رہا ہے، جس کے تحت پانچ بلین یورو تک کی فوجی امداد مہیا کی جا سکتی ہے۔
یورپی یونین کی جانب سے یوکرین کو دفاعی امداد کی فراہمی کا فیصلہ جرمنی کی پالیسی میں ایک غیر معمولی تبدیلی کے بعد ممکن ہوا۔ جرمنی دوسری عالی جنگ کے بعد سے دفاع کے لیے اپنا بہت کم بجٹ مختص کرتا ہے اور مسلح تنازعات سے متاثرہ علاقوں کو جنگی ساز و سامان مہیا نہیں کرتا۔ اب لیکن جرمنی نے یوکرین کو ایک ہزار ٹینک شکن ہتھیار اور ’اسٹنگر‘ کیٹیگری کے 500 میزائل فراہم کرنے کا اعلان کیا ہے۔
امریکہ بھی یوکرین کے لیے فوجی ساز و سامان کی ترسیل بڑھا رہا ہے۔ امریکہ کی جانب سے یوکرین کو اینٹی ٹینک میزائل، اسٹنگر اینٹی ایئر کرافٹ میزائل، چھوٹے ہتھیار اور گولہ بارود فراہم کیے جا رہے ہیں۔ یوکرین کو ملنے والی امریکی فوجی امداد گزشتہ ایک سال کے دوران ایک ارب ڈالر تک پہنچ گئی اور سن 2014 سے اب تک اس امداد کی مالیت 2.5 بلین ڈالر سے زیادہ ہو چکی ہے۔
لاجسٹک چیلنجز
مغربی دنیا کی یہ دفاعی امداد روسی افواج کو پسپا کرنے کی کوششوں میں یوکرین کے لیے انتہائی اہمیت کی حامل ہو گی۔ لیکن اس ساز و سامان کی ترسیل کے حوالے سے لاجسٹکس اور دیگر ممکنہ رکاوٹوں سے متعلق خدشات بھی پائے جاتے ہیں۔ اب تک مغرب کی طرف سے یہ فوجی امداد زمینی یا فضائی راستوں سے یوکرین پہنچائی جاتی رہی ہے۔
یورپی کونسل فار فارن ریلیشنز کے مشرقی یورپ اور دفاعی پالیسی کے ایک ماہر نے ای میل کے ذریعے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’یوکرین کی فضائی حدود اب روسی جنگی طیاروں کے کنٹرول میں ہیں، جو بنیادی طور پر فضائی حملوں اور میزائل حملوں کے ذریعے اس سپلائی کو روک سکتے ہیں۔‘‘
اس طرح کے خلل کا امکان پولینڈ میں زیادہ ہے، جس کی یوکرین کے ساتھ سرحد 535 کلومیٹر طویل ہے۔ امریکی فوج کی پولینڈ کے راستے فوجی اور سامان بھیجنے کی بھی اپنی ایک طویل تاریخ ہے۔ اب ہنگری کی جانب سے ایسے جنگی ہتھیاروں کو اپنی سرزمین سے گزرنے کی اجازت دینے سے انکار کے بعد سارا بوجھ پولینڈ پر پڑ گیا ہے۔
لندن میں قائم تھنک ٹینک رائل یونائیٹڈ سروسز انسٹیٹیوٹ میں یورپی سکیورٹی کے ریسرچ فیلو ایڈ آرنلڈ نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’یہ تمام جنگی ساز و سامان اس وقت بنیادی طور پر پولینڈ کی سرحد پر جمع ہو رہا ہے۔ مثال کے طور پر اگر سلوواکیہ مدد فراہم کرنا چاہے بھی، تو پہاڑی سلسلوں کی وجہ سے راستہ آسان نہیں ہو گا۔ یہ پہاڑی سلسلے سلوواکیہ سے نیچے رومانیہ کی طرف جاتے ہیں۔‘‘ وقت کی کمی
دوسرا اہم پہلو وقت ہے، جو کییف اور خارکیف میں یوکرائنی افواج کو ہتھیار پہنچانے کے لیے تیزی سے ختم ہو رہا ہے۔ ایڈ آرنلڈ کا کہنا ہے کہ یہ خاص طور پر مشرقی لائن پر موجود یوکرینی افواج کے لیے پریشانی کی بات ہے۔ 95 ویں ایئر اسالٹ بریگیڈ کے یہ بہترین یوکرائنی فوجی ہیں اور اگر یہ جلد ہی دریائے نیپر کے مغرب کی طرف نہیں جاتے، تو ان کا رابطہ منقطع ہو جائے گا، ’’انہیں ہتھیاروں کی ضرورت ہو گی کیوں کہ وہ اس وقت روسی فوجیوں کے ساتھ شدید لڑائی میں مصروف ہیں۔‘‘
آرنلڈ کے مطابق اس مرحلے پر ہتھیاروں اور گولہ بارود کی کمی کا خطرہ بھی ہے۔ ’’یوکرینی دستوں کے پاس موجود بھاری جنگی ہتھیاروں کے لیے گولہ باردو کا ذخیرہ شاید پانچ دن تک کے لیے کافی ہوگا ۔ ان کے پاس دوسرا آپشن یہ ہے کہ وہ روسی فوجیوں کی جانب سے چھوڑے گئے ہتھیاروں پر قبضہ کر لیں، جو انہیں کچھ دیر کے لیے تو مدد دے سکیں گے، لیکن یہ وقت بھی زیادہ نہیں ہو گا۔‘‘