جرمنی (اصل میڈیا ڈیسک) اولاف شولس نے بطور جرمن چانسلر اپنے پہلے دورہ اسرائیل کے دوران بدھ کے دن کہا کہ ایران کے ساتھ اس کے جوہری پروگرام سے متعلق معاہدے کی بحالی اب مزید مؤخر نہیں ہو سکتی۔ اسرائیل اس معاہدے کی بحالی کا انتہائی حد تک مخالف ہے۔
برلن میں جرمنی کی موجودہ مخلوط حکومت کے سربراہ اور سوشل ڈیموکریٹ سیاست دان اولاف شولس اس وقت وفاقی جرمن چانسلر کے طور پر اسرائیل کا اولین دورہ کر رہے ہیں۔ انہوں نے بدھ دو مارچ کے روز یروشلم میں کہا کہ عالمی طاقتوں اور ایران کے مابین جوہری معاہدے کی بحالی اب مزید تاخیر کی متحمل نہیں ہو سکتی۔ دونوں ممالک میں نئی حکومتی قیادت
اولاف شولس کے اس دورے پر یوکرین پر روسی فوجی حملے کے بعد پیدا ہونے والی جغرافیائی سیاسی کشیدگی کے گہرے سائے چھائے ہوئے ہیں۔
جرمنی میں طویل عرصے تک اقتدار میں رہنے والی خاتون چانسلر انگیلا میرکل کے جانشین کے طور پر اولاف شولس اور اسرائیل میں کئی مرتبہ سربراہ حکومت منتخب ہونے والے بینجمن نیتن یاہو کے پس رو کے طور پر وزیر اعظم نفتالی بینیٹ دونوں ہی حکومتی سربراہان کے طور پر اپنے اپنے عہدوں پر مقابلتاﹰ نئے ہیں۔ دونوں کو ہی اس وقت بین الاقوامی سطح پر ایسے سیاسی حالات کا سامنا ہے، جو ان کے لیے قیادت کا امتحان ثابت ہو رہے ہیں۔
جرمن چانسلر اولاف شولس نے وزیر اعظم نفتالی بینیٹ کے ساتھ ملاقات کے بعد یروشلم میں جس مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کیا، اس میں دونوں ممالک کے مابین ایران سے متعلق ان کی پالیسیوں میں پایا جانے والا اختلاف رائے چھپا نہ رہ سکا۔
جرمن سربراہ حکومت نے کہا کہ جرمنی چاہتا ہے کہ ویانا میں ایران اور عالمی طاقتوں کے مابین جاری مذاکرات کے نتیجے میں جوہری معاہدے کی بحالی پر حتمی اتفاق رائے ہو جائے۔ اولاف شولس نے اسرائیلی وزیر اعظم بینیٹ کی موجودگی میں صحافیوں کو بتایا، ”اب وقت آ گیا ہے کہ فیصلہ کیا جائے۔ اب اس میں مزید تاخیر بالکل نہیں ہونا چاہیے، کیونکہ اب اس میں مزید تاخیر ہو نہیں سکتی۔ اب بالآخر وہ لمحہ آ گیا ہے کہ کسی اچھے اور مناسب حل کے لیے ہاں کر دی جائے۔‘‘
جرمن چانسلر شولس کے اس موقف کے بعد ان کے اسرائیلی میزبان نفتالی بینیٹ نے، جن کا ملک ایران کا سب سے بڑا حریف ہے، کہا کہ انہیں ایران کے ساتھ ایک نئے معاہدے کے واضح ہوتے جا رہے خد و خال پر ‘گہری تشویش‘ ہے۔
نفتالی بینیٹ نے اس خدشے کا اظہار بھی کیا کہ ایران کو اس کے خلاف عائد پابندیوں کے حوالے سے چھوٹ دیتے ہوئے، تہران کو ایٹمی ہتھیار بنانے سے روکنے کے لیے جو کچھ کیا جا رہا ہے، وہ ناکافی ہے۔ اسرائیلی وزیر اعظم نے مزید کہا کہ ان کا ملک ‘ویانا میں جاری جوہری مذاکرات پر تشویش کے ساتھ لیکن نظر رکھے‘ ہوئے ہے۔
ساتھ ہی وزیر اعظم بینیٹ نے یہ بھی کہا کہ اسرائیل جانتا ہے کہ اسے اپنا دفاع کیسے کرنا ہے اور وہ اپنی سلامتی اور مستقبل دونوں کو یقینی کس طرح بنا سکتا ہے۔
قبل ازیں جرمن چانسلر شولس نے یروشلم میں دوسری عالمی جنگ کے دوران نازیوں کے ہاتھوں یہودیوں کے قتل عام کی یاد واشیم کہلانے والی یادگار کا دورہ بھی کیا۔ اس موقع پر نفتالی بینیٹ بھی ان کے ہمراہ تھے۔
اولاف شولس نے وہاں مہمانوں کی کتاب میں اپنے پیغام میں لکھا، ”یہودیوں کا قتل عام جرمنی نے شروع کیا تھا۔ ہر جرمن حکومت کی یہ مستقل ذمے داری ہے کہ وہ اسرائیلی ریاست کی سلامتی اور یہودیوں کی زندگیوں کے تحفظ کو یقینی بنائے۔‘‘
اس موقع پر اسرائیلی وزیر اعظم بینیٹ نے کہا، ”ہولوکاسٹ وہ زخم ہے، جس سے جرمنی اور اسرائیل کے روابط کی بنیاد نے جنم لیا۔ اسی زخم سے شروع کر کے ان دونوں ممالک نے اپنے بہت مؤثر اور دیرپا باہمی تعلقات کو پروان چڑھایا ہے۔‘‘