واشنگٹن (اصل میڈیا ڈیسک) اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے بدھ کے روز یوکرین پرروس کے حملے کی مذمت میں قرارداد منظور کرلی ہے اور اس کی سرزنش کرتے ہوئے مطالبہ کیا ہے کہ وہ یوکرین میں لڑائی بند کرے اور اپنی مسلح افواج کو واپس بلائے۔اس رائے شماری کا مقصد روس کو عالمی ادارے میں سفارتی طور پر تنہا کرنا ہے۔
جنرل اسمبلی کے 193 ارکان میں سے 141 نے قرارداد کی حمایت کی ہے۔اسمبلی کا یہ ہنگامی اجلاس اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے طلب کیا تھا جبکہ یوکرینی افواج روس کے فضائی حملوں اور تباہ کن بمباری میں جنوبی شہر خیرسن کی بندرگاہ کے دفاع کے لیے لڑرہی تھیں جس کے نتیجے میں لاکھوں افراد دربدر ہونے پر مجبور ہو گئے ہیں۔
قرارداد کے متن میں روس کی ’’یوکرین کے خلاف جارحیت‘‘ پر افسوس کا اظہار کیا گیا ہے۔اقوام متحدہ کی ویب سائٹ کے مطابق آخری بار سلامتی کونسل نے 1982 میں جنرل اسمبلی کا ہنگامی اجلاس بلایا تھا۔
روس کے ساتھ بیلاروس، اریٹیریا، شمالی کوریا اور شام نے اس قرارداد کے خلاف ووٹ دیا ہے۔بیلاروس تو یوکرین پر روسی فوج کے حملے میں لانچ پیڈ کے طور پر استعمال ہورہا ہے۔ چین سمیت پینتیس رکن ممالک نے رائے شماری میں حصہ نہیں لیا اور اجلاس سے غیرحاضر رہے ہیں۔
اگرچہ جنرل اسمبلی کی منظورکردہ قراردادیں غیر پابند ہوتی ہیں لیکن ان کا ایک سیاسی وزن ہے اورروسی جارحیت کے خلاف قرارداد کی منظوری یوکرین کی علامتی فتح کی نمائندگی کرتی ہے اور ماسکو کی بین الاقوامی تنہائی میں اضافہ کرتی ہے۔یہاں تک کہ روس کے روایتی اتحادی سربیا نے بھی اس کے خلاف ووٹ دیا ہے۔
اقوام متحدہ میں امریکی سفیر لنڈا تھامس گرین فیلڈ نے اسمبلی کو بتایا کہ روس اپنی جارحیت کی سفاکیت کو تیز کرنے کو تیار ہے۔انھوں نے رکن ممالک پر زور دیا کہ وہ بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزیوں پر ماسکو کا احتساب کریں۔
انھوں نے روسی فوجیوں کی یوکرین میں بھاری ہتھیار منتقل کرنے کی ویڈیوز کاحوالہ دیا جن میں کلسٹر گولہ بارود اور ویکیوم بم بھی شامل ہیں جن پر بین الاقوامی قوانین کے تحت پابندی عاید ہے۔انھوں نے کہا کہ یہ ایک غیرمعمولی لمحہ ہے۔ اب حالیہ تاریخ کے کسی بھی دوسرے موڑ سے زیادہ خود اقوام متحدہ کو چیلنج کیا جارہا ہے۔
انھوں نے اقوام متحدہ کے رکن ممالک کے نمایندوں پرزوردیاکہ اگر آپ کے ممالک کو خودمختاری اور علاقائی سالمیت کا حق حاصل ہے تو ہاں میں ووٹ دیں۔اگر آپ سمجھتے ہیں کہ روس کو اس کے اقدامات کا حساب دینا چاہیے تو ہاں میں ووٹ دیں۔
اقوام متحدہ میں روس کے ایلچی واسیلی نیبینزیا نے اس بات کی تردید کی ہے کہ ماسکو یوکرین میں عام شہریوں کو نشانہ بنا رہا ہے۔انھوں نے مغربی حکومتوں پرالزام لگایا کہ وہ اراکین اسمبلی پرقرارداد منظور کرنے کے لیے دباؤ ڈال رہی ہیں جن کی منظوری سے مزید تشدد کو ہوا مل سکتی ہے۔
انھوں نے روس کے اس دعوے کا اعادہ کیا کہ اس کا اقدام ایک خصوصی فوجی کارروائی ہے جس کا مقصد مشرقی یوکرین میں ماسکو کی حمایت یافتہ دو جمہوریاؤں ڈونیسک اور لوہانسک میں شہریوں پر مبیّنہ حملوں کا خاتمہ کرنا ہے۔نیبینزیا نے الزام لگایا کہ یوکرینی افواج شہریوں کو انسانی ڈھال کے طورپراستعمال کررہی ہیں اور شہری علاقوں میں بھاری ہتھیارنصب کر رہی ہیں۔
چین کی اجلاس سے غیرحاضری کے بارے میں وضاحت کرتے ہوئے بیجنگ کے ایلچی ژانگ جون نے کہا کہ اس قرارداد میں اسمبلی کی ’’پوری رکنیت کے ساتھ مکمل مشاورت‘‘کی گئی ہے اور نہ ہی اس میں موجودہ بحران کی تاریخ اور پیچیدگی پر مکمل غورکیا گیا ہے۔
انھوں نے کہا کہ اس میں ناقابل تقسیم سلامتی کے اصول کی اہمیت یا سیاسی تصفیے کوفروغ دینے اور سفارتی کوششوں کو تیزکرنے کی فوری ضرورت کو اجاگر نہیں کیا گیا ہے۔ یہ چین کے مستقل مؤقف کے مطابق نہیں۔
چین حالیہ برسوں میں تیزی سے روس کے قریب آیا ہے، اس کا کہنا ہے کہ وہ ماسکو کے خلاف مغربی پابندیوں میں حصہ نہیں لے گا۔
قبل ازیں یوکرین کے اقوام متحدہ میں ایلچی سرگئی کیسلیٹسا نے قرارداد کی منظوری پر زور دیتے ہوئے کہا کہ اس کے لیے زیادہ سے زیادہ حمایت کی ضرورت ہے۔انھوں نے اسے روسی جارحیت کو روکنے کی دیوار تعمیر کرنے کے لیے عمارتی بلاکوں میں سے ایک قرار دیا ہے۔
روس نے ایک ہفتہ قبل یوکرین میں زمینی فوج داخل کی تھی لیکن ابھی تک اس نے یوکرین کی حکومت کا تختہ الٹنے کا اپنا مقصد حاصل نہیں کیا ہے۔اسے خاص طور پر مغرب کی جانب سے ایک غیرمعمولی بین الاقوامی ردعمل کا سامنا کرنا پڑا ہے جس کی پابندیوں نے روس کے مالیاتی نظام کو اپاہج کردیا ہے جبکہ بڑے کثیرقومی ممالک نے سرمایہ کاری ختم کر دی ہے۔
واشنگٹن نے روسی صدرولادی میر پوتین اور مرکزی بینک کے خلاف کثیرجہت پابندیاں عاید کی ہیں کیونکہ روس کی افواج نے دوسری جنگ عظیم کے بعد پہلی مرتبہ کسی یورپی ریاست پرسب سے بڑا حملہ کیا تھا اور جارحیت کا ارتکاب کیا ہے۔