میں برصغیر پاک و ہند کے مشہور و معروف سید علی ہجویری المعروف داتا گنج بخش کے مزار پر انوار عقیدت کے پھو ل نچھا ور کر نے آیا ہوا تھا۔ ہمیشہ کی طرح عقیدت مندوں کا سیلاب آیاہوا تھا وطن عزیز کے کو نے کو نے سے زائرین اپنی بے نور روحوں کو ایمان کے نور میں رنگنے آئے ہو ئے تھے یہ تو وہ لوگ تھے جو یہاں آسانی سے آسکتے ہیں مجھے یو رپ بر طانیہ کے وہ بے شمار تا رکین وطن یاد آگئے جب ان کے سامنے شہنشاہِ لا ہور کا ذکر ہو تا تو ان کی آنکھوں میں عقیدت کے چراغ روشن ہو جا تے اوروہ ایک ہی درخواست کرتے کہ لاہور جاتے ہی ہمارا سلام داتا حضور کو ضرور پہنچا ئیے گا اور پھر بہت سارے ایسے لو گ بھی ملے جو کہتے کہ جب یاد بہت آتی ہے تو ہم ٹکٹ لے کر لاہور ائر پو رٹ پر اترتے ہیں سیدھے سید علی ہجویری کے مزار پر جاتے ہیں سلام کر کے واپس آجاتے ہیں پاکستان اور دنیا بھر میں سید علی ہجویری کے دوسرے بزرگوں کے پر وانے ایسے ہیں جو اپنی زندگی کا ہر کام یہاں دعا کے بعد کر تے ہیں۔
شہر لا ہور میں اکثریت ایسے عقیدت مندوں کی ہے جو روزانہ کام یا نو کر ی پر جانے سے پہلے یہاں سلام کر کے جاتے ہیں جنہیں کو ئی بھی آزمائش آئے تو وہ یہاں کا رخ کر تے ہیں عقیدت اور عشق کا یہ رنگ دیکھ کر عقل حیران ہو جاتی ہے کہ اِن عظیم بزرگوں نے ایسا کو ن سا کام کیا ہے کہ صدیوں سے یہ دلوں پر راج کر رہے ہیں عقیدت و احترا م کا جنون تھمنے کا نام ہی نہیں لے رہا بلکہ ہر گزرتے دن کے ساتھ اِن کی عقیدت اور شہرت میں اضا فہ ہی ہو تا جا رہا ہے عبا دت ریا ضت سخا وت تو بہت سارے لو گ کر تے ہیں لیکن آخر پروانوں کی طرح لو گ اِن کے مزارات کا رخ ہی کیوں کر تے ہیں صدیاں گزر گئیں لیکن یہ خاک نشین شہرت کے آسمان پر روشن چاند کی طرح چمک رہے ہیں صدیوں کا غبار اِ ن کی شہرت کو دھندلا کر نے کی بجا ئے اور نکھا رتا جا رہا ہے۔
بادشاہوں کی قبروں پر چمگادڑوں اندھیروں کا راج ہے جبکہ یہاں لوگ ہزاروں چراغ روشن کر تے ہیں میں اپنی سوچوں میں غرق تھا کہ کسی نے میرے کندھے پر ہا تھ رکھا میں نے اس کی طرف دیکھا تو مٹھا ئی کا ٹکڑا میرے ہا تھ میں پکڑا کر وہ آگے چلا گیا اِسی طرح کچھ لوگ بریا نی کے پیکٹ دال نان با نٹتے ہو ئے نظر آئے تو اچانک میرے دما غ میں روشنی کا کو ندا لپکا اور با ت سمجھ میں آگئی کہ یہ فرش نشین آخر کیوں کیسے شہرت کے آسمان پر قیامت تک کے لیے امر ہو گئے صدیوں پہلے جب یہ بزرگانِ دین بر صغیر پاک و ہند میں تشریف لا ئے تو انہوں نے اذیت ناک منظر دیکھا کہ ذا ت پات میں منقسم یہ کیا مذہب ہے۔
جہاں نیچی ذات کے انسان جانوروں سے بھی بد تر زندگی گزار رہے ہیں ہندو مذہب میں شو در تین بڑی ذاتوں کی خدمت پر ما مور تھا اس کی زندگی کی بقا ہی اونچی ذات کے ہندو کی خدمت تھی اگر غلطی سے شودر کسی اونچی ذات کے ہندو سے ہا تھ ملا لیتا تو وہ نا پا ک ہو جاتا موجو دہ تر قی یا فتہ مہذب دور میں بھی اگر اونچی ذات کا براہمن اگر کسی سیا سی مجبو ری کے تحت کسی شود ر سے ہا تھ ملا لیتے تو فوری طو رپر جا کر اپنے ہا تھ دھو تا ہے شودر جو دن رات اِن کی خدمت کر تے ہیں اگر ایسی مذہب کے اشلو ک اِن کے کانوں میں پڑ جا ئیں تو اِن غریبوں کے کانوں میں سیسہ پگلا کر ڈال دیا جاتا تھا۔
اِن کے ساتھ ہاتھ نہ ملا نے کے لیے ہا تھ جو ڑ کر پرنا م کا طریقہ اپنا یا گیا ہزاروں سالوں سے نیچی ذات کے ہندو ذلت کے سمندر میں گم کیڑے مکو ڑوں کی طرح زمین پر رینگتے ہو ئے زندگی گزا رنے پرمجبور تھے اور پھر خدا ئے بزرگ و بر تر کو اِن بے کسوں مجبو روں پر رحم آیا غزنی سے ایک گو را چٹا نو جوان دراز قد دیو تا ں کی طرح خوبصورت سید زادہ شہر لا ہو رمیں آتا ہے یہاں کے کلچر کا بغور مطالعہ کر تا ہے اور پھر دستر خوان بچھاتا ہے لنگر کا آغا زکر تا ہے اپنے ساتھ شودر کو بیٹھا تا ہے اپنی پلیٹ سے نوالا بنا کر اس کے منہ میں ڈالتا ہے اپنی پلیٹ میں اس کو کھا نے میں شریک کر تا ہے وہ شودر جو زندگی بھر مردار اور لوگوں کے بچے ہو ئے با سی ٹکڑوں پر زندہ تھا حیرت سے دیوتا ں جیسے خو بصورت نو جوان کو دیکھتا ہے جو ہزاروں سال سے غلامی اور ذلت کی زنجیروں میں جکڑا ہوا تھا۔
اس کو یقین نہیں آتا کہ میں کسی انسان کے ساتھ بیٹھ سکتا ہوں اس کے کھانے میں شریک ہو سکتا ہو ں اور پھر جب نوجوان سید زادہ دلنواز تبسم کے ساتھ کہ تم بھی میرے جیسے ہی ہو میرے مذہب میں کسی گو رے کا کا لے پر کسی عربی کو عجمی پر کو ئی بر تر ی حاصل نہیں ہے تو صدیوں کا غلام شودرپکا ر اٹھتا ہے ہاں تم سچ کہہ رہے ہو تو تم نے مجھے کھا نے میں ساتھ بٹھا کر شریک کر کے یہ ثابت کر دیا ہے او رپھر لنگر کی کرا مت کا آغا ز ہو تا ہے آج پاکستان میں تقریبا 8100دربا رہیں اِن مزاروں پر دن رات لنگر جا ری ساری ہے لاکھوں غریب مزدور اور سفید پو ش اِن لنگروں سے مفت کھا نا کھا تے ہیں ایک غیر مرعی قوت اِن درباروں اور لنگروں کو خا موشی سے چلا رہی ہے یہاں پر آٹا چاول گھر دالیں گو شت چینی مصالحہ جات کیسے آتے ہیں عقل حیران ہے۔
یہاں ملک میں آٹھ کروڑ سے زیادہ لو گ خطِ غربت سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں یہ لو گ کس طرح زندہ ہیں ما ہرین اِس با ت پر حیران ہیں جب تک ہما رے ملک میں اِن خاک نشینو ں کے یہ لنگر قائم ہیں اِس ملک کو کچھ بھی نہیں ہو سکتا دن رات یہاں پر ضرورت مندوں کا سیلاب آیا ہو تا ہے اِس ہجوم میں عزت دار عقیدت مند سفید پو ش سبھی ہو تے ہیں لنگر کے حصول میں کو ئی گر جا ئے کسی کو چوٹ لگ جا ئے تو کو ئی نا راض نہیں ہو تا یہاں پر لا ئن میں لگنا با عثِ شرمندگی نہیں سمجھا جاتا بلکہ یہ تو لنگر کو تبرک کے طو ر پر لیتے ہیں شفا کے طو رپر لیتے ہیں ایک نوا لے کو ہی دنیا جہا ں کے لذیز کھا نوں پر سبقت دیتے ہیں یہاں پر کسی کی عزت نفس پامال نہیں ہو تی بے شمار کا میاب لوگوں کے تذکروں ہیں یہ شامل ہے کہ جب وہ پڑھنے یا مزدور ی کے لیے لا ہو ر شہر میں آئے تو نہ جیب میں کھا نے کو پیسے تھے اور نہ ہی رہنے کو ٹھکانہ تھا تو ماں کی آغو ش کی طرح شہنشا ہِ لا ہور نے دو وقت کی روٹی بھی دی اور رات کو مسجد میں سونے کی جگہ بھی یہاں پر کھا نے اور رہنے کے لیے کسی کا رڈ واوچر کی ضرو رت نہیں ہے یہاں پر کسی کو واپس نہیں بھیجا جا تا کہ تم اِس کے حقدار نہیں ہو۔
اگر گورنمنٹ کو اِس طرح لا کھوں لوگوں والوں کو کھا نا دینا پڑ ے تو چند دن بعد ہی بھاگ جا ئے لیکن اِن مزارات پر محو خواب یہ عظیم اولیا کرام کے فیض صدیوں سے چلتا آرہا ہے اِن آستا نوں پر خا ک نشین یہ بزرگ ہی تھے جنہوں نے اپنی زندگیوں میں خدمت خلق کے جذبے کے تحت جب یہ دستر خوان بچھائے تو اس دن کے بعد آج تک یہ دستر خوان جا ری و ساری ہیں اِن بزرگوں کے دنیا سے جا نے کے بعد ان کے عقیدت مندوں نے اِس سلسلے کو جا ری رکھا گر دش لیل و نہا ر میں کئی رنگ آئے گزر گئے لیکن یہ لنگر خا نے آج بھی غریبوں مسا فروں مزدورں فاقہ کشوں کے پیٹ کی آگ کو بجھا رہے ہیں کسی کو لائن میں لنگر ملتا ہے تو کسی کو مراقبہ کی حالت میں کسی خاموش کو اس کے پاس جا کر لنگر دیا جاتا ہے۔
یہاں لنگر بانٹنے والا کسی شہرت کا طا لب نہیں ہو تا بلکہ وہ تو خو د بھکا ری سمجھ کر اِس در پر آتا ہے یہاں نہ دینے والے کو شہرت غرور کا چسکا اور نہ لینے والے کو شرم ندا مت کا خیال یہاں تو تبرک تقسیم ہو تا ہے یہاں سب امیر غریب برابر ہیں آپ پو ری دنیا گھوم لیں یہ لنگر خا نے آپ کو صرف یہاں ہی ملتے ہیں برصغیر پاک و ہند میں اولیا کرام نے اسلام کے نور کو پھلا نے کے لیے یہ راستہ اختیا ر کیا عشق الہی کے یہ عظیم مسا فر اپنے گھر بار وطن رشتے دار چھو ڑ کر جب یہاں آئے تو ذات پات میں تقسیم اِس معا شرے کے سدھا ر کے لیے لنگر خا نے کا اہتمام کیا غیر مسلموں کے لیے سبزی والے لنگر کا اہتما م کیا جاتا اور پھر لنگر خا نوں کی بر کت سے سارے انسان برابر ہو تے چلے گئے اور یہ لنگر کی ہی کرا مت تھی جو بر صغیر کے ذات پا ت میں تقسیم معاشرے کو جڑوں سے بلا کر رکھ دیا اورہندو مذہب پر زے پرزے ہو کر بکھر گیا۔
Prof Muhammad Abdullah Khan Bhatti
تحریر: پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی ای میل: help@noorekhuda.org فون: 03004352956 ویب سائٹ: www.noorekhuda.org فیس بک آفیشل پیج: www.fb.com/noorekhuda.org