یوکرین (اصل میڈیا ڈیسک) روس نے جنگ شروع کرنے کی ذمہ داری یوکرین پر عائد کی ہے۔ روس کا کہنا ہے کہ وہ ڈونباس میں مقامی آبادی کو منظم انداز میں ختم کرنے کے سلسلے کو روکنے کی کوشش کر رہا ہے۔ ڈونباس میں سن 2014 سے حالات کشیدہ تھے۔
روسی وزارتِ خارجہ کی ترجمان ماریا زاخاروفا نے فیس بک پر ایک پوسٹ کے ذریعے یوکرین پر جنگ شروع کرنے کا الزام عائد کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ روس نے جنگ شروع نہیں کی بلکہ وہ اسے ختم کر رہا ہے۔
اس پوسٹ میں زاخاروفا نے لکھا کہ ڈونباس تنازعے کو حل کرنے کے لیے روسی فوج کشی ضروری تھی کیونکہ اس علاقے میں کئی سالوں سے جنگی حالات پیدا تھے۔ زاخاروفا کے مطابق یوکرین منظم انداز میں ڈونباس کی مقامی آبادی کا صفایا کرنے کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے تھا۔
ایسی ہی بات روسی صدر ولادیمیر پوٹن نے فوج کشی کا اعلان کرتے ہوئے کہی تھی۔ اس وقت روسی صدر نے ملکی دستور کی شق اکاون کا حوالہ دیتے ہوئے کہا تھا کہ یہ اقدام ملکی دفاع کے تناظر میں کیا گیا ہے۔
ڈی ڈبلیو کے فیکٹ چیک کے مطابق ماریا زاخاروفا کا بیان غلط ہے۔ موجودہ مسلح تنازعہ چوبیس فروری سن 2022 کو شروع ہوا جب روسی افواج یوکرین میں داخل ہوئی تھیں۔ اس سے کچھ وقت قبل روسی صدر ولادیمیر پوٹن نے تقریر کرتے ہوئے اس فوج کشی کو ‘خصوصی ملٹری آپریشن‘ قرار دیا تھا۔ اس فوج کشی سے لڑائی شروع ہوئی اور پھر جنگی حالات میں تبدیل ہوتی چلی گئی۔
روسی وزارتِ خارجہ کا یہ دعویٰ بھی بے بنیاد ہے کہ مشرقی یوکرینی علاقے ڈونباس میں مقامی آبادی کا منظم انداز میں صفایا کیا جا رہا ہے۔ اس مناسبت سے بھی ٹھوس ثبوت دستیاب نہیں ہیں۔
روس اور یوکرین یہ ماننے کے لیے تیار نہیں کہ سن 2014 کا مسلح تنازعہ شروع کرنے کی ذمہ داری کس پر عائد ہوتی ہے۔ یہ تنازعہ اس وقت شروع ہوا جب سابق یوکرین کے صدر وکٹور یانوکووچ نے یورپی یونین کے ساتھ شراکتی معاہدے پر دستخط کرنے سے انکار کیا تھا۔ مغرب نواز مظاہرین کے شدید احتجاج نے یانوکووچ کو ملک سے فرار ہونے پر مجبور کر دیا۔
اسی دور میں سبز وردیوں میں ملبوس سپاہیوں نے کریمیا پر قبضہ کر لیا تھا۔ روسی حکام نے کہا تھا کہ سبز وردیوں والے سپاہیوں کا روس سے کوئی تعلق نہیں اور نہ ہی وہ کریملن کے احکامات پر عمل پیرا ہیں۔
اسی سال یعنی سن 2014 میں ایک ریفرنڈم کا انعقاد کرایا گیا اور عوام سے پوچھا گیا کہ وہ جزیرہ نما کریمیا کا روس سے الحاق چاہتے ہیں۔ کثیر آبادی نے ریفرنڈم میں پوچھے گئے سوال کا جواب مثبت دیا اور پھر اس علاقے کو روسی فیڈریشن میں ضم کر دیا گیا۔ عالمی برادری نے اس عمل کو غیر قانونی قرار دیا تھا۔
سن 2014 ہی میں روس نے مشرقی یوکرین کے علیحدگی پسندوں کی تحریک آزادی کی حمایت کرنا شروع کر دی۔ اس تحریک کو کییف کی حکومتی افواج کا سامنا کرنا پڑا۔ سن 2014 میں ڈونیٹسک اور لوہانسک نے خود کو’ پیپلز ریپبلک‘ قرار دے دیا۔
ماسکو حکومت نے ان دونوں علاقوں کی آزادی کو رواں برس فوج کشی سے چند روز قبل اکیس فرروری کو تسلیم کر لیا تھا۔ چوبیس فروری کو روسی افواج یوکرینی سرزمین میں داخل ہوئی تھیں۔
فیس بک پر روسی وزارتِ خارجہ کی ترجمان ماریا زاخاروفا نے اپنی پوسٹ میں تحریر کیا کہ مشرقی یوکرین میں جاری جنگ میں کم از کم تیرہ ہزار افراد کو ہلاک کیا گیا اور اسے ڈونباس کی آبادی کو منظم انداز میں ختم کرنے کی کوشش قرار دیا جا سکتا ہے۔
اس کا کوئی ثبوت میسر نہیں کہ مشرقی یوکرین کے علیحدگی پسند علاقوں میں مقامی آبادی کو منظم انداز میں نشانہ بنایا جا رہا ہو۔ آرگنائزیشن برائے یورپی سکیورٹی و تعاون کے مبصرین سن 2014 میں اس علاقے میں حالات کی نگرانی کر رہے تھے۔ انہوں نے اپنی کسی رپورٹ میں نسل کشی یا وسیع پیمانے پر عام شہریوں کی ہلاکت کو رپورٹ نہیں کیا۔
اقوام متحدہ نے البتہ فریقین (یوکرینی فوج اور علیحدگی پسند باغی) پر انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا الزام ضرور عائد کیا تھا۔
یہ درست ہے کہ اس مسلح تنازعے میں کم از کم تیرہ ہزار انسان ہلاک ہو چکے ہیں۔ ان ہلاکتوں میں چار ہزار ایک سو یوکرینی فوجی ہیں جبکہ پانچ ہزار چھ سو پچاس علاقائی باغی اور تین ہزار تین سو پچاس عام شہری۔
یوکرین پر جنگ شروع کرنے کے روسی الزام میں کتنی صداقت ہے؟