ہمارے ہاں مہنگی تعلیم اور طبقاتی نظام زندگی سے جہاں عام آدمی کا جینا مشکل ہوا ہے وہی پر اسے اپنے آنے والی نسلوں کے مستقبل کا بھی خوف ہے غریب کا بچہ ماسٹر ڈگری کرنے کے بعد کلرک اور کانسٹیبل بھی بھرتی نہیں ہوسکتا جبکہ مہنگے پرائیوٹ تعلیمی اداروں سے گریجوایشن کرنے والے مقابلے کے امتحانات پاس کرکے اعلی سرکاری عہدوں پر فائز ہو جاتے ہیں ایسے میں غریب اور متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے بچے ساری عمر محنت مزدوری کرتے ہی نظر آتے ہیں مگر ایک شعبہ ایسا ہے جہاں غریب کا بچہ اپنا نام اور مقام پیدا کرکے نہ صرف ملکی سطح پر بلکہ انٹرنیشنل سطح پر اپنی پہچان بنا سکتا ہے۔
شہرت کی بلندیوں کے ساتھ پیسے کی فراوانی بھی شروع ہوجاتی ہے وہ شعبہ ہے کھیل کا جو غریب اور امیرکو زندگی میں کامیابیوں کے یکساں مواقع فراہم کرتا ہے آپ کرکٹ، ہاکی،فٹ بال،کبڈی سمیت باقی دوسری کھیلوں پر ایک نظر ڈالے تو اس میں زیادہ تر غریب گھرانوں سے تعلق رکھنے والے لڑکے نمایا ں ہونگے جو اپنی محنت،حوصلے اور جوش و ولولہ کے زور پر آگے آئے انہوں نے نہ صرف اپنی ایک الگ شناخت بنائی بلکہ پاکستان کو بھی دنیا میں متعارف کروایا۔ پاکستان میں کھیلوں کی پرموشن کے حوالہ سے پاکستان سپورٹس بورڈ (پی ایس بی)،پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی) اور صوبائی سپورٹس بورڈ موجود ہیں جو اپنے اپنے انداز میں کھیل اور کھلاڑی کے لیے کام کررہے ہیں ملکی سطح پر کام کرنے والا پاکستان سپورٹس بورڈ کا ایک کوچنگ سنٹر لاہور میں کلمہ چوک کے پاس ہے جہاں کبھی کھیلوں کی بجائے آوارہ کتوں کا راج ہوا کرتا تھا۔
ویران اور اجڑا ہوا یہ کوچنگ سنٹر ڈاکٹر فہمیدہ مرزا کے آنے کے بعد آباد ہونا شروع ہوا اور جب سے یہاں پر نصراللہ رانا کی بطور ڈائریکٹر تعیناتی ہوئی ہے تب سے یہاں پر رونقیں لگ گئی اور ویران میدان آباد ہوگئے گذشتہ روز نصراللہ رانا صاحب نے میرے ریڈیو پروگرامیں بطور مہمان شرکت کی تو بہت سی باتیں ہوئی خاص کر کھلاڑیوں کی تربیت سے لیکر انہیں قومی سطح تک کا کھلاڑی بنانے تک ان کے پاس بہت سی سہولیات موجود ہیں اب تو انہوں نے جم بھی بنانا شروع کردیا ہے بہت کم لوگ ایسے ہوتے ہیں جو اپنے شعبہ سے مخلص ہوں اگر ایسے افراد ہر شعبہ میں آجائیں تو نہ صرف ہمارے ادارے بہتر ہوجائیں گے بلکہ عام لوگوں کی مشکلات میں بھی خاطر خواہ کمی آئے گی مگر بدقسمتی سے ہمارے اداروں میں انسان نہیں جونکیں براجمان ہیں جو ہماری کا خون چوس رہی ہیں خیرسے یہ نظام آج سے نہیں بلکہ کئی دہائیوں سے خراب ہے جسے ٹھیک ہوتے ہوتے وقت لگے گا۔
اس کے لیے ضروری ہے کہ حکومت نصراللہ رانا جیسے افراد کو اہم ذمہ داریاں دے جن کا اعلان ہے کہ پاکستان کے کسی بھی شہر کے کسی کونے میں کوئی ایسا بچہ موجود ہے جسکے اندر ٹیلنٹ ہے تو پاکستان سپورٹس بورڈ اسے اپنا لیتا ہے اسکی رہائش اور خوراک کا ذمہ دار بن جاتا ہے اسکی تربیت اپنا حق سمجھتا ہے اور پھر اسے ملکی سطح پر کھیلوں میں شامل کرلیتا ہے یہاں کھیلوں کی اکیڈمیاں ہیں ماہر کوچ ہیں جو ہمارے مستقبل کو سنوارنے کی کوششوں میں ہیں یہاں صرف 5سو ماہانہ پر بچوں کی بہترین تربیت کی جارہی ہے جو اتنے پیسے بھی نہیں دے سکتے انکے لیے بھی تربیت مفت ہے صرف بچہ ان کے پاس پہنچ جائے کھلاڑی اسے یہ بنا دیتے ہیں۔
پاکستان سپورٹس بورڈ اور پنجاب سپورٹس بورڈ دونوں ادارے پنجاب کی عوام کے لیے اپنی اپنی خدمات سرانجام دے رہے ہیں پاکستان اسپورٹس بورڈ کو 1962 میں ایک کارپوریٹ باڈی کے طور پر قائم کیا گیا تھا جس کا مقصد پاکستان میں کھیلوں کے مقابلے کے یکساں معیارات کو فروغ دینا تھا جو بین الاقوامی سطح پر مروجہ معیارات کے مقابلے اور کھیلوں کو ریگولیٹ کرنے اور کنٹرول کرنے کے لیے تھا۔ پاکستان میں وزارت ثقافت، کھیل اور سیاحت کے قیام کے ساتھ ہی جولائی 1977 میں پاکستان سپورٹس بورڈ کا انتظامی کنٹرول اس کو منتقل کر دیا گیا جون 2011 میں وزارت کھیل کی منتقلی کے بعد پاکستان سپورٹس بورڈ کا انتظامی کنٹرول وزارت بین الصوبائی رابطہ (IPC) کو منتقل ہو گیا ہے بورڈ کی ایک جنرل باڈی ہے جس کا صدر دفتر اسلام آباد میں ہے جنرل باڈی 38 ارکان پر مشتمل ہے جو پالیسی مرتب کرتے ہیں اور 12 رکنی ایگزیکٹو کمیٹی اس پالیسی کو نافذ کرتی ہے۔
پاکستان سپورٹس بورڈ کھیلوں کا سب سے بڑا ادارہ ہونے کے ناطے پورے پاکستان میں قومی کھیلوں کی فیڈریشنز کی سرگرمیوں /معاملات کی نگرانی کرتا ہے اس سے الحاق کرتا ہے اور بورڈ کی طرف سے انہیں دی جانے والی سالانہ اور خصوصی گرانٹس کے مناسب استعمال کو یقینی بناتا ہے سالانہ گرانٹس قومی فیڈریشنوں کو ان کے روزمرہ کے اخراجات کو پورا کرنے کے لیے جاری کی جاتی ہیں جبکہ خصوصی گرانٹس کا مقصد بین الاقوامی کھیلوں کے مقابلوں میں شرکت اور انعقاد کے لیے ہوتا ہے یہ گرانٹس کھیلوں کی مقبولیت، بین الاقوامی سطح کی کامیابیوں اور فیڈریشنز کی سرگرمیوں کو مدنظر رکھتے ہوئے پاکستان سپورٹس بورڈ کی ایگزیکٹو کمیٹی کے ذریعے مختص/منظوری دی جاتی ہیں اس وقت 40 نیشنل اسپورٹس فیڈریشنز بورڈ کے ساتھ منسلک ہیں ہر فیڈریشن اپنے متعلقہ کھیل/کھیلوں کے فروغ اور ترقی کی ذمہ دار ہے PSB کے ہیڈ کوارٹرز اور صوبائی ہیڈ کوارٹرز میں کوچنگ سنٹرز میں کھیلوں کی وسیع سہولیات موجود ہیں۔
یہ سہولیات بنیادی طور پر قومی تربیتی کیمپوں اور مختلف قومی اور بین الاقوامی مقابلوں کے انعقاد کے لیے استعمال ہوتی ہیں اس کے علاوہ، یہ سہولیات عام ممبر شپ کی بنیاد پر عام لوگوں تک بھی پہنچائی جاتی ہیں۔ 18ویں آئینی ترمیم کے بعد کھیلوں کی تریج و ترقی کے اختیارات صوبوں کو منتقل ہوگئے تھے جسکے بعد متعلقہ صوبائی حکومتیں اپنے صوبوں میں کھیلوں کے فروغ اور ترقی کی ذمہ دار ہیں پنجاب میں وزیر اعلی سردار عثمان بزدار کی سربراہی میں سپورٹس بورڈ بھی سرگرم ہے جو کھیلوں کو گراس روٹ لیول تک لیکر جارہا ہے سردار عثمان بزدار کی کوشش ہے کہ نجوان نسل کھیل کے میدان آباد کریں اور اس کے لیے انہوں نے فنڈز کی کوئی کمی نہیں رہنے دی کمی ہے تو صرف ایسے افراد کی جو اپنی ذمہ داری احسن طریقے سے سرانجام دیں سکیں تاکہ ہمارے ادارے مضبوط ہوں۔