اسلام آباد (اصل میڈیا ڈیسک) وزیراعظم عمران خان کیخلاف تحریک عدم اعتماد کا معاملہ لندن سے لاہور اور اسلام آباد تک جاری مصروف ترین سیاسی سرگرمیوں کا مرکز بنی ہوئی ہے جس میں وزیراعظم نے اپنی حکومت بچانے کے لیے بالآخر عثمان بزدار کا متبادل لانے پر غور شروع کر دیا ہے۔
علیم خان نے نواز شریف سے ملاقات کی ہے، ق لیگ والے وزارت اعلیٰ کا عہدہ حاصل کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں جبکہ ایم کیو ایم والے پیپلز پارٹی سے یقین دہانیاں مانگ رہے ہیں۔
میڈیا رپورٹس سے معلوم ہوتا ہے کہ وزیراعظم نے عثمان بزدار کو ہٹانے پر اتفاق کیا ہے اور معاملہ اپوزیشن کی عدم اعتماد کی تحریک کا فیصلہ آنے تک التوا میں رکھا ہے۔ ایک ذریعے نے دعویٰ کیا ہے کہ عمران خان نے جہانگیر ترین گروپ کے عون چوہدری سے بات چیت کی ہے اور محمد اسلم اقبال کا نام صوبے کا نیا وزیراعلیٰ لگانے کیلئے تجویز کیا ہے۔
عون چوہدری پہلے عمران خان کے قریبی ساتھی ہوا کرتے تھے لیکن بعد میں انہوں نے جہانگیر ترین گروپ میں شمولیت اختیار کرلی اور وزیراعظم سے راہیں جدا کر لیں۔ رابطہ کرنے پر انہوں نے تردید کی کہ وزیراعظم نے اُن سے بات کی ہے۔ تاہم، ذریعے کا کہنا تھا کہ وزیراعظم نے چوہدری سے بات کی ہے اور اسلم اقبال کو بزدار کی جگہ لگانے پر بات ہوئی تاکہ جہانگیر ترین اور ان کے گروپ کی حمایت حاصل کی جا سکے۔
جہانگیر ترین آج کل علاج کے لیے لندن میں ہیں۔ ان کی غیر موجودگی میں گروپ کی سرگرمیاں عون چوہدری سنبھال رہے ہیں جو جہانگیر ترین سے مکمل رابطے میں ہیں۔ حکومت کا کہنا ہے کہ فی الحال اس کی توجہ عدم اعتماد کی تحریک پر ہے اور وہ بزدار ایشو سے بعد میں نمٹے گی۔ اس بات کی میڈیا اطلاعات ہیں کہ وزیراعظم نے کمیٹی تشکیل دیدی ہے جو بزدار کے جانشین کے نام کو حتمی شکل دے گی۔
لندن میں علیم خان نے نواز شریف سے بدھ کو ملاقات کی تاکہ عمران حکومت اور اسے ہٹانے پر بات کی جا سکے۔ جمعرات کو علیم خان نے جہانگیر ترین سے ملاقات کی۔ چند روز قبل علیم خان ابھر کر سامنے آئے تھے اور دعویٰ کیا تھا کہ ان کے پاس پارٹی کے کچھ ناراض ارکان قومی و پنجاب اسمبلی کی حمایت موجود ہے۔ علیم خان نے اپنے گروپ کو ترین گروپ میں ضم کرنے کا اعلان کیا تھا۔ علیم خان پنجاب کی وزارت اعلیٰ حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
تاہم، ق لیگ اور ترین گروپ کے درمیان ہونے والی بدھ کی ملاقات میں اس معاملے پر کوئی فیصلہ نہ ہو سکا۔ علیم خان نے اسی وجہ سے نواز شریف سے ملاقات کی تھی لیکن ذرائع کا کہنا ہے کہ وہاں بھی پنجاب کے وزیراعلیٰ کے عہدے کا فیصلہ نہ ہو سکا۔ ق لیگ والے اپوزیشن جماعت کے رہنماؤں کے ساتھ ملاقاتوں میں مصروف ہیں تاکہ پرویز الٰہی کیلئے وزارت اعلیٰ کا عہدہ حاصل ہو سکے۔
چوہدری شجاعت منگل کو اسلام آباد پہنچے، مولانا فضل الرحمان سے ملاقات کی اور جمعرات کو آصف زرداری سے ملے۔ کوئی فیصلہ ہونے تک پرویز الٰہی بھی اسلام آباد پہنچ رہے ہیں۔ باخبر ذرائع کا کہنا ہے کہ آصف زرداری نون لیگ پر زور دے رہے ہیں کہ پنجاب میں وزیر اعلیٰ کا عہدہ پرویز الٰہی کو دیا جائے تاکہ عمران خان کیخلاف حمایت مضبوط ہو سکے۔
تاہم، نون لیگ والوں نے اب تک اس معاملے پر کوئی فیصلہ نہیں کیا۔ کہا جاتا ہے کہ آصف زرداری نے چوہدریوں کو یقین دہانی کرائی ہے کہ پیپلز پارٹی ایم کیو ایم کو سندھ حکومت میں شامل کرے گی اور جتنا ممکن ہو سکا اتنے مطالبات پورے کرے گی۔
اگرچہ ترین گروپ، ق لیگ اور ایم کیو ایم والے اپوزیشن کی طرف مائل نظر آ رہے ہیں اور حکمران جماعت کے مخالفین سے ملاقاتیں کر رہے ہیں لیکن اب تک کوئی فیصلہ نہیں کر پائے کہ کس کا ساتھ دینا ہے۔ اسی دوران حکومت نے اپوزیشن اور پی ٹی آئی کے ناراض ارکان کیخلاف اپنی طاقت کا مظاہرہ کرنا شروع کر دیا ہے۔
جمعرات کو اسلام آباد پولیس نے اپوزیشن ارکان کے لاجز پر دھاوا بول دیا جس کا بظاہر مقصد جے یو آئی ف کے اسکاؤٹس کو گرفتار کرنا تھا جبکہ پنجاب میں ترین گروپ نے شکایت کی ہے کہ حکومت نے ناراض ارکان کے کچھ لوگوں کا کاروبار بند کرا دیا ہے۔