ہم نے تو جب سے ہوش سنبھالا ہے پاکستانی سیاست کو مایوسی اور خوف کا شکار دیکھا ہے نہ کبھی بزعم خود لیڈران کو قابل اعتماد پایا نہ اس ملک میں انصاف کو قابل اعتبار پایا بس پایا تو صرف انتشار پایا ،گھبرائے ہوئے لیڈر ،سیاست میں بزور قوت دخل انداز مذہب کے ٹھیکیدار ،بیرونی فنڈنگ پر پلتا میڈیا ،باریاں دینے پر مجبور اسٹیبلشمنٹ اور ان سب کے درمیان رلتی کھلتی گھبرائی ہوئی عوام ،یہ تو پہلی بار ہوا کہ کسی نے کہا ” گھبرانا نہیں ہے ”لیکن اس ایک جملے نے سب کو گھبرا دیا ہے کیونکہ سب ایک ہی کھونٹے سے بندھے تھے اور اس کھونٹے کا نام تھا امریکہ ،، کتنا آسان ہوتا ہے نا کسی کی ڈکٹیشن پر چلنا کوئی زیادہ محنت نہیں کرنی پڑتی بس پرچی سے بھی کام چل جاتا تھا اس لیے توپرچی والا تین بار چن لیا گیا بھولی عوام نے اس کو اپنا مقدر سمجھ لیا اور وہ مقدر کا سکندر ،سیاست ایک کاروبار بن گئی مذہب خوف کی علامت ،میڈیا بلیک میلنگ اور اسٹیبلشمنٹ محض کھلونا ،جانے کون لوگ تھے جو اسے طاقتور سمجھتے تھے ہاں جب تک وہ اسے طاقتور سمجھ کر استعمال کرتے رہے وہ استعمال ہوتے رہے جب کھونٹے نے انہیں بے اعتبار کر لیا تب اس نے قلم اور ترازو چن لیا پاکستان کی تین نسلیں برباد کر کے ان کے ہاتھ میں استرا تھما دیا کہ لو اب اپنا گلا کاٹو یہ استرا تھا سوشل میڈیا۔
پھر کٹھ پتلیوں نے لیپ ٹاپ بانٹے وہ مولوی جو کبھی تصویر کھنچوانا اور لائوڈ سپیکر استعمال کرنا حرام سمجھتے تھے اب لیپ ٹاپ کو مورچہ بنا کر بیٹھ گئے امریکہ برطانیہ یورپ کے دوروں پر جانے لگے لوگ پوچھتے تو کہتے گوروں کو مسلمان کرنے جاتے ہیں حالانکہ اپنا ایمان بیچ کر آتے تھے سب کچھ سیٹ ہو چکا تھا مگر ہمارا ملک ،معاشرہ اپ سیٹ ہو چکا تھا ہم نے جس مقصد کے لیے یہ ملک حاصل کیا تھا وہ تو ریت کی طرح بکھر گیا ہم مردہ ہمارے ضمیر مردہ کیو نکہ ہم سمت کھو چکے تھے مایوسی بہت گہری تھی لیکن کہتے ہیں نا کہ اندھیرہ جتنا گہرا ہو روشنی اتنی قریب ہوتی ہے تو اے پاکستانیو! اب یہ کرن کھو نہ دینا تمھارا مقابلہ ایک نہیں کئی دشمنوں سے ہے باہر کے دشمن ،اندر کے دشمن ،دین کے دشمن ،ینصاف کے دشمن اور سب سے سے بڑی دشمن جہالت ۔۔۔۔مجھے تو خیر سیاست بھی نہیں آتی نہ یہ پتا کہ آئین کے کس آرٹیکل کے تحت طاقتور کو انصاف اور کمزور کورگڑا دیا جاتا ہے لیکن میں نے ان طاقتور ملکوں میں انصاف ہوتے دیکھے ہیں انصاف کا میعار بھی دیکھا ہے ہم سب لوگوں کا کوئی نہ کوئی رشتہ دار ضرور ان ملکوں میں رہتا ہے جو ہمیں بتاتا ہے کہ یہاں انصاف کا کتنا اعلی میعار ہے اگر آپ نہیں جانتے یا کم لوگ جانتے ہیں تو میں آپ کو کچھ معلومات دیتی ہوں انہیں پڑھ لیں ۔
میں نے پڑھا تھا وہاں شہریوں پر مشتمل جیوری بنا ئی جاتی ہے لیکن ایسے شہری جو کسی جرم میں لوث نہ ہوں مطلب بے داغ کردار کے حامل اور یہ کسی بھی مجرم کی خواہش پر بنائی جاتی ہے جو کہہ دے مجھے جج پر اعتبار نہیں تب وہ جیوری فیصلہ کرتی ہے وہ کسی کے علم میں نہیں ہوتی نہ کسی کی پسند پر بنتی ہے جیوری بنانے سے پہلے جیوری کا محکمہ اپنے ضلع کو نوٹس بھیجتا ہے اس تاریخ کو ضلع کی عدالت میں حاضر ہو جائو یا جمعہ کی شام کہ فون کر کے اپنا نام بتائو یا پھر پیر کو حاضر ہو ایسے ہی پورا ہفتہ آدمی انتظار کرتا ہے کہ میرا نمبر آیا کہ نہیں اگر نمبر آیا تو عدالت میں جا کر دس یا بارہ مرد ،خواتین مل کر فیصلہ کرتے ہیں اگر ایک بھی انکاری ہو کہ مجرم بے گناہ ہے یا گناہ گار ہے تو دوبارہ جیوری بنائی جاتی ہے اور دوبارہ شہادت کا عمل شروع ہوتا ہے اگر جیوری ممبر کسی اخلاقی یا قانونی جرم میں ملوث ہو تو وہ خود ہی کہہ دیتا میں اس جرم میں ملوث رہ چکا ہوں جج کے پاس اپنے وکیل کے ساتھ جا کر مان جاتا تو جج اس کے لیے سزا تجویز کرتا ہے اگر قتل کا مقدمہ ہے تو جج اس کے لیے سزائے موت کے بدلے عمر قید تجویز کرتا ہے جو مجرم مان جائے اس کو سزا کم ملتی ہے۔
اگر کسی وجہ سے کسی مجرم نے ضمانت نہیں کرائی یا نہیں ہو سکی تو جتنا عرصہ جیل میں رہا یا رہی اس کو قید میں گنا جاتا ہے ۔۔پھر فیصلے کے وقت جج لکھ دیتا ہے کہ اتنے عرصے کے بعد یہ مجرم اپنی عارضی رہائی کے لیئے درخواست دے سکتا ہے اگر مجرم جیل میں سکون سے رہا تو سزا پچاس سال ہو یا پچیس سال اس کو رہا کر دیا جاتا ہے جو معاشرے کے لیے بربادی نہ کرے جن کے ساتھ زیادتی ہوتی ہے وہ بھی اس کے ساتھ عدالت میں ہوتے ہیں جیوری دونون طرف سے سن کر پھر مجرم کو جیل یا رہائی دی جاتی ہے عدلیہ کا نظام وہاں زبردست ہے مجرم اور مدعی کو بہت انتظار بھی نہیں کرنا پڑتا نہ تاریخوں پر تاریخیں ملتی ہیں نہ اوپر کی عدالتوں میں اپیلیں دھری جاتی ہیں نہ جج وڈیو زدہ ہوتے ہیں نہ جج ٹوکریاں لیتے ہیں نچلی عدالتیں یعنی ضلعی سطع پر ہی مقدمات نمٹائے جاتے ہیں اس لیے طاقتور لوگ جج نہیں کر سکتے نہ کسی ملک کا سفیر ان کے ججوں سے ملاقاتیں کرتا ہے ۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بڑے ملک کے سفیر ہمارے سیاسی لیڈروں اور ججوں سے ملاقاتیں کیو ں کرتے ہیں وہ ہمارے نظام ینصاف کی خامیوں سے فایدہ اٹھتے ہیں کیوں؟ اس کا جواب انہیں ہمیں دینا پڑے گا کیونکہ ایک دن ہم سے بھی ہماری نئی نسل یہ سوال ضرور کرے گی آپ کب تک انہیں قومیت کارڈ یا مذہب کارڈ کا ستو پلاتے رہیں گے ؟ اب جاگنے کا وقت آ گیا ہے یہ سازشی ٹولہ اسی لیے مضطرب ہے کہ جو نظام انہوں نے اپنے مفاد کے لیے تشکیل دے رکھا ہے وہ اب ٹوٹنے کو ہے اب کچھ سیاست کی بات ہو جائے میجر جنرل (ر)شوکت صاحب نے ایک زبردست تجزیہ کیا ہے وہ لکھتے ہیں جب میں ڈی اے جرمنی تھا تو ہمارے سفیر آصف ایزدی صاحب تھے اور ان کی اہلیہ محترمہ سیمی جاھانگیر ترین کی بہن ہیں اب وہ سینیٹر ہیں ویں نے ان کا موقف سنا وہ اچھی دانشور ہیں جہانگیر ترین اور ان کا گروپ کبھی بھی عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی حمایت نہیں کرے گا بلکہ ان کے خیال میں جہانگیر ترین اور علیم خان عمران خان کے حق میں نون لیگ کو مات دیں گے وزیر اعظم اپوزیشن کی تحریک کو بھاری ووٹوں سے شکست دیں گے بلکہ ایک مضبوط وزیر بن کر ابھریں گے انشائاللہ ۔
اور اس کا اندازہ بھی ہو چکا ہے پارلیمانی لاجز میں غیر آئینی طور پر دستے تعینات کرنا اور ان کو گرفتار کرنے پر چوکوں چوراہوں پر فساد کی دھمکیاں دینا ملک بند کرنے کے اعلان اسی بوکھلاہٹ کی طرف اشارہ ہیں شہباز شریف کی جانب سے کارڈ دکھانے اور علیم خان کو وزیر اعلی پنجاب بنانے کی ان کی حمایت نے ق لیگ اور زرداری کو بری طرح متاثر کیا ہے اور اسی لیے ق لیگ کے پاس حکومت کا ساتھ دینے کے علاوہ کوئی آپشن نہیں بچا بدلے میں زرداری اس سیاسی کھیل میں نون لیگ کو بری طرح کھوکھلا کریں گے اسمبلی کا اجلاس سولہ مارچ کو بلایا جائے گا اور عدم اعتماد کو بڑے مارجن سے شکست دی جائے گی اس کے دو دن کے اندر پنجاب کا وزیر اعلی تبدیل کر کے چودھری نثار علی خان کو پنجاب کا وزیر اعلی بنا دیا جائے گا تییسمارچ پریڈ پورے اہتمام سے ھو گی وزیر اعظم کی سخت الفاظ میں تقریر ہو گی کشمیر میں بھارتی مظالم کی بھر پور مذمت ہو گی یو کراین میں روس کی خاموش حمایت ہو گی تییس مارچ کے بعد نئے سیاسی سٹریجک ابھریں گے۔