سانس لیتے تکیے کو گلے لگانے سے ڈپریشن میں کمی

Pillow

Pillow

جرمنی: ڈپریشن، گھبراہٹ اور بے چینی ہماری روزمرہ زندگی کا ایک حصہ بن چکی ہے۔ ادویہ کے ساتھ اب سائنسدانوں نے انسانی احساس والا تکیہ بنایا ہے جو مصنوعی طور پر سانس لیتا ہے اور اسے دھڑے سے لگانے پر عجیب سکون کا احساس ملتا ہے۔

اسے آپ گلے ملنے والا تکیہ کہہ سکتے ہیں جس میں خاص پمپ، سرکٹ اور موٹریں لگی ہیں ۔ ان کی بدولت اندر کی ساخت پھیلتی اور سکڑتی ہے جس کا احساس تکیہ رکھنے والا دھڑ اور سینے پر محسوس کیا جاسکتا ہے۔ لیکن ریاضیاتی طور پر تیار یہ تکیہ خود آپ کو سانس کی مشق اور مراقبے میں مدد دیتا ہے۔

اس سے قبل اسی طرح آغوش میں لیے جانے والے روبوٹ اور مشینی جاندار بنائےجاتے رہے ہیںَ۔ اس تکیے کا مقصد بھی کسی دوا کے بغیر اکتاہٹ اور بے چینی کم کرنا ہے۔ اسی لیے جرمنی کی سارلینڈ یونیورسٹی کے ایلیس ہائنز نے اسے سائنسی اصولوں پر تیار کیا ہے۔ نمونے کے طور پر بنائے جانے والا تکیہ عین انسنای پھیپھڑے کی طرح کام کرتا ہے۔

اگلے مرحلے میں اسے 129 رضاکاروں پر آزمایا گیا جو کسی نہ کسی درجے کی اینزائٹی کے شکار تھے۔ ان میں سے بعض افراد کو کچھ دیر تکیے کو آغوش میں لینے پر کہا ، ان سے سوالنامے بھروائے گئے اور پھر ایک ریاضیاتی ٹیسٹ بھی لیا گیا۔

45 افراد سے کہا گیا کہ وہ صرف 8 منٹ تک تکیے کو سینے سے لگائے اور اسے محسوس کریں۔ دوسری جانب 40 افراد کو آواز کے ذریعے رہنما مراقبہ کرایا گیا جبکہ 44 افراد نے کچھ نہیں کیا۔ تجربات سے پہلے اوربعد میں سوالنامے سے ان افراد میں بے چینی کی سطح کو ناپا گیا۔

جن افراد نے تکیے کو گلے لگایا اور مراقبہ کیا تھا، ان دونوں گروہوں نے بے چینی میں کچھ کمی کا اعتراف تو کیا لیکن جن 44 افراد کو کوئی مدد نہ دی گئی انہوں نے تو درحقیقت بے چینی میں اضافے کا اعتراف کیا۔

اس طرح ہم کہہ سکتے ہیں کہ تکیہ تھراپی عین مراقبے کی طرح ہی مؤثر اورپراثر ہے۔ سانس لیتے اس تکیے کی کل لمبائی 36 سینٹی میٹر ہے۔ اس کے استعمال کی کوئی رہنمائی نہیں دی گئی ہے اور نہ ہی یہ کسی ایپ سے کنٹرول ہوتا ہے۔ اس کے استعمال کا انحصار خود مریضوں پر ہے کہ وہ اسے کسطرح محسوس کرتے ہیں۔

تاہم ماہرین کے مطابق یہ تکیہ لاشعوری طور پر سانس لینے کے عمل کو کسی مراقبے کی طرح ہموار اور باقاعدہ بناتا ہے جس سے دماغ اور نظامِ ہاضمہ کو سکون ملتا ہے۔