روس (اصل میڈیا ڈیسک) یوکرین جنگ تیسرے ہفتے میں داخل ہو چکی ہے اور روسی صدر نے مشرق وسطیٰ سے رضاکار جنگجوؤں کو یوکرین لانے کی منظوری دے دی ہے۔ یہ ممکنہ روس نواز رضاکار جنگجو کون ہیں اور انہیں کتنی ادائیگی کی جائے گی؟
روسی فوج کا مشرق وسطیٰ کے ملک شام میں گہرا اثرو رسوخ ہے۔ روسی فورسز نے سن 2015ء میں شامی صدر بشار الاسد کی حمایت میں وہاں مداخلت کی تھی اور گیارہ سال سے جاری خانہ جنگی میں صدر اسد کو برتری دلائی ہے۔ لیکن روس شام سے کتنی بڑی تعداد میں جنگجو لا سکتا ہے اور انہیں کہاں کہاں تعینات کیا جائے گا، یہ ابھی غیر واضح ہے۔
جمعے کو روسی وزیر دفاع سرگئی شوئیگو نے انکشاف کیا ہے کہ مشرق وسطیٰ سے 16 ہزار سے زیادہ درخواستیں موصول ہو چکی ہیں لیکن یہ نہیں بتایا کہ ان جنگجوؤں کا تعلق مشرق وسطیٰ کے کس ملک سے ہے؟ شام کی اپوزیشن کے مطابق روس نے یوکرین جنگ کے لیے بھرتیوں کا سلسلہ شروع کر دیا ہے لیکن جنگجوؤں کی تعداد اتنی زیادہ نہیں ہے، جتنی کہ روس بتا رہا ہے۔
روس کی جانب سے یہ اعلان ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے، جب یوکرین نے یہ بتایا ہے کہ مختلف ممالک کے تقریبا 20 ہزار غیر ملکی جنگجو علاقائی دفاع کے لیے ‘بین الاقوامی لشکر یوکرین‘ میں شامل ہو چکے ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر جنگجوؤں کا تعلق مغربی ممالک سے ہے۔
شام کی طویل اور بھیانک جنگ نے مسلح افراد کی ایک بڑی تعداد کو جنم دیا ہے۔ اس تنازعے کے تمام فریقین کے پاس مختلف دھڑے، مسلح ملیشیا، اسلحہ بردار گروہ اور کرائے کے فوجی موجود ہیں۔ شام میں حکومت کے حامی نیم فوجی گروپوں کی صفوں میں کئی ہزار نام نہاد ‘قومی دفاعی اہلکار‘ شامل ہیں۔ مسیحی ملیشیا کے جنگجو اور فوج کے منحرف شہری اب گوریلا جنگ میں ماہر بن چکے ہیں۔ ان میں روس کے تعاون سے چلنے والے دیگر معاون یونٹس بھی شامل ہیں اور وہ شیعہ ملیشیا بھی، جو شامی فوج کے شانہ بشانہ لڑ رہے تھے۔
شامی حالات کے ایک تجزیہ کار ڈینی مکی کے مطابق، ”اگر ضرورت پڑی تو روس یوکرین میں لڑنے کے لیے جلد ہی ان گروپوں کے ارکان کو بھرتی کر سکتا ہے۔‘‘ قریبی عراق، لبنان اور ایران کے حمایت یافتہ جنگجوؤں نے بھی اس جنگ میں شمولیت اختیار کی تھی اور یہ صرف شامی باغیوں سے ہی نہیں بلکہ داعش سے بھی لڑے اور انہیں شکست سے دوچار کیا۔
روسی پرائیویٹ کمپنی واگنر گروپ کے بھی ہزاروں کرائے کے فوجیوں کو شام میں تعینات کیا گیا تھا۔ مڈل ایسٹ انسٹی ٹیوٹ کے لیے اپنے تجزیہ میں مکی لکھتے ہیں، ”شام کی معیشت کی بدحالی کے پیش نظر ایسے سخت جان لڑاکا جوانوں کی کمی نہیں ہے، جو مادی فائدے کے لیے اپنی زندگیاں داؤ پر لگانے کے لیے تیار ہیں۔‘‘
اور یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ شامی جنگجوؤں کو بیرون ملک تنازعے میں شمولیت کے لیے بھرتی کیا جا رہا ہو۔ آذربائیجان اور لیبیا کے تنازعات میں بھی ہزاروں غیرملکی جنگجو شامل ہیں اور ان میں شام، سوڈان اور ترکی کے جنگجو بھی ہیں۔ بھرتیوں کی تازہ کوششیں
ایسے شواہد سامنے آ رہے ہیں کہ شام میں بھرتیوں کا سلسلہ شروع ہو چکا ہے اور خاص طور پر ان علاقوں میں جو حکومت کے زیر کنٹرول ہیں۔ یورپ میں مقیم ایک کارکن عمر ابو لیلیٰ، جو شامی جنگ کی نگرانی کرنے والا گروپ دیر الزور 24، چلاتے ہیں، کا کہنا ہے، ” واگنر گروپ گزشتہ کئی دنوں سے عراق سے ملحق مشرقی صوبے دیرالزور میں بھرتیوں کا سلسلہ شروع کر چکا ہے۔‘‘
عمر ابو لیلیٰ کے مطابق اس صوبے میں درجنوں افراد معاہدے کر چکے ہیں۔ ان کے دعوے کے مطابق روس یوکرین میں چھ ماہ بطور سکیورٹی گارڈ بھرتی کے لیے 200 سے 300 ڈالر ماہانہ کی آفر کر رہا ہے۔ تاہم دیگر کئی شامی مبصر گروپوں کا کہنا ہے کہ یہ بھرتیاں فی الحال علامتی اور ابتدائی مراحل میں ہیں۔
تاہم جمعے کے روز شام کی فورتھ آرمڈ ڈویژن کے کلوزڈ فیس بک گروپ میں ‘یوکرین میں جنگی کردار کے لیے‘ ایک اشتہار پوسٹ کیا گیا تھا۔ یہ شامی فوج کی سب سے بڑی ڈویژن ہے۔ اس میں تین ہزار ڈالر کی آفر کی گئی ہے۔ رجسٹریشن محدود تھی اور ساتھ ہی مہارت اور تجربے کا ذکر کیا گیا تھا۔
روسی دفاعی افواج کے ٹی وی پر بھی ایسی ویڈیوز نشر کی گئی ہیں، جن میں بھرتی ہونے والے نوجوانوں کو دیکھا جا سکتا ہے۔ شمال مغربی شام کے ایک اپوزیشن کارکن احمد الاحمد کے مطابق حکومتی زیر کنٹرول علاقے میں پانچویں کور کے سینئر افسران سے کہا گیا ہے کہ وہ یوکرین میں لڑائی کے لیے ایسے نوجوان بھرتی کریں، جنہیں شہروں میں لڑائی کا تجربہ ہے۔
اندازوں کے مطابق جنوبی شام میں تقریبا تین ہزار افراد خود کو رجسٹر کروا چکے ہیں لیکن آزاد ذرائع سے اس کی ابھی تک تصدیق نہیں ہو سکی ہے۔ مڈل ایسٹ کے جنگجو کیا کردار ادا کر سکتے ہیں؟
شام میں شہری جنگ کا تجربہ رکھنے والے جنگجوؤں کے لیے کچھ معاملات میں کھونے کے لیے کچھ بھی نہیں ہے۔ لیکن کئی سالہ جنگ کے تجرنے کے باوجود بھی شامی جنگجو کسی بڑی مہارت کے لیے مشہور نہیں ہیں۔ شامی ماہرین اس بات پر سوال اٹھا رہے ہیں کہ یوکرین جنگ میں مشرق وسطی کے جنگجو کس قدر کارآمد ثابت ہو سکتے ہیں؟ کیوں کہ ان جنگجوؤں کو مقامی زبان نہیں آتی اور دوسری بات کہ انہیں نہ اس علاقے کا علم ہے اور نہ ہی یہ یوکرینی موسمی حالات سے واقفیت رکھتے ہیں۔ تاہم اگر جنگ جاری رہتی ہے اور روسی افواج پھنس جاتی ہیں تو غیر ملکی جنگجو ایک زیادہ پرکشش آپشن بن جائیں گے۔
دوسری جانب تجزیہ کار مکی کے مطابق فی الحال شامی جنگجوؤں کی روس فورسز کے ساتھ مل کر یوکرین میں لڑنے کی خبریں قبل از وقت ہیں۔ لیکن ایک بات پر وہ بھی متفق نظر آتے ہیں، ” اگر روس کی ہلاکتیں زیادہ ہو جاتی ہیں، تو شامی ایک پرکشش آپشن ہیں کیوں کہ یہ روس کی نظر میں سستے جنگجو ہیں۔‘‘