عدم اعتماد بھی مغربی جمہوریت کی مختلف اصطلحوں کی طرح ایک اصطلاح ہے۔مغربی جمہوریت میں مملکت، حکومت، مقننہ، عدلیہ، صحافت اور اپوزشن مل کر اس نظام کو کامیابی سے چلاتے ہیں۔ ہر مملکت کی ایک اساس ہوتی ہے جو اس کے عوام کی امنگوں کی ترجمانی کرتی ہے۔کوئی بھی منتخب حکومت مملکت کی اساس سے ہٹ کر معاملات نہیں چلاسکتی۔اسلامی جمہوریہ پاکستان کی اساس اسلام ہے۔ مقننہ کو عوام منتخب کرتے ۔پھراسے مملکت کی اساس کے مطابق آئین بنانا ہوتا ہے۔ عدلیہ مقننہ کے بنائے ہوئے قانون کے مطابق فیصلے کرتی ہے۔ صحافت عوام کے روز مرہ کے مسائل کو اجگر کرتی ہیں۔ منتخب حکمرانوں کے فیصلوں پر جائز تنقید کرتی ہے۔حکمران حکومت کو الیکشن کے دوران عوام سے کیے گئے وعدے یاد کراتی رہتی ہے۔
اپوزیشن عوام کے مفاد میں ہونے والی قانون سازی میں حکمران حکومت کی مدد کرتی ہے۔مگر موجودہ پارلیمنٹ میں ایسا کچھ بھی نہیں ہوا ؟بس مفادات کی لڑائی ہوتی رہی۔ اپوزیشن عوام کے مفاد کے خلاف کسی بھی اقدام کی پارلیمنٹ میں مخالفت کرتی ہے۔اگر حکمران جماعت کو پاکستان کے آئین کے مطابق عوام ٹو تھرڈمجارٹی سے کامیاب کرتے ہیں تو وہ قانون سازی میں آزاد ہوتی ہے۔اگر حکومت بنانے کے لیے کسی سیاسی جماعت کو ٹو تھرڈ مجارٹی نہ ملے تو پھر وہ آزادممبران اور دوسرے گروپوں کو ملا کے حکومت بنائی جاتی ہے۔پارلیمنٹ کے ممبران ،پارلیمانی نظام حکومت کے مطابق ، اکثریتی جماعت میںوزیر اعظم کا انتخاب کرتے ہیں۔
پاکستان کے آئین کے مطابق حکمران جماعت کو پانچ سال پورے کرنے کی اجازت ہوتی ہے۔حکمران حکومت کے پانچ سال پورے ہونے پر نگران حکومت، نئے الیکشن کرانے کا انتظامات کرتی ہے اور یوں یہ سلسلہ چلتا رہتا ہے۔جب حکمران حکومت اپنے منشور، جس پروہ الیکشن جیت کر حق حکمرانی حاصل کرتی ہے، اس کے مطابق عوام کو ریلیف نہ دے سکے توحکمران جماعت کے خلاف اپوزیشن عدم اعتماد کے لیے پارلیمنٹ میں اپنے اکژیت ثابت کر کے اسے آئین کے مطابق حق حکمرانی سے بے دخل کر سکتی ہے۔
اس ہی عدم اعتماد کا آجکل ہمارے ملک میں شور شرابہ ہے۔ ہمارے ملک میں جب کوئی بھی الیکشن جیت کر آتاہے تو پہلے دن سے الیکشن میں ہارنے والے نہیں مانتے ۔مختلف قسم کے الزامات لگاتے ہیں۔ تحریک انصاف پر الزام ہے کہ اسے فوج اقتدار میں لائی ہے۔جبکہ پیپلز پارٹی ،نواز لیگ اور جمعیت علما سب فوج کی مدد سے آتی رہی ہیں۔ ساتھ ساتھ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ فوج کسی بھی حکومت کو پانچ سال مکمل نہیں کرنے دیتی۔جبکہ تحریک انصاف سے پہلے پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نے اپنے اپنے دورمیں پانچ پانچ سال مکمل کیے ہیں۔
فضل الرحمان صاحب نے پہلے دن ہی دھمکی دی تھی کہ پارلیمنٹ کو چلنے نہیں دیں گے۔ کوئی بھی پارلیمنٹ میں حلف اُٹھانے کے لیے نہ جائے۔ مگر سب پارٹیوں کے ممبران نے حلف اُٹھائے۔ سراج الحق صاحب نے فضل الرحمان کی پالیسی سے اختلاف کیا اور ایم ایم اے سے علیحدہ ہو گئے۔ان کے خیال کے مطابق الیکشن میں جیتنے والے کو پانچ سال مکمل کرنے چاہییں۔ حکومت کے اچھے کاموں کی تائید اور برے کاموں پر تنقید کریں گے۔ دیکھا جائے تو یہ ہی پارلیمانی جمہوریت کا حسن ہے۔الیکشن سے پہلے نواز شریف کو سپریم کورٹ کے سات معزز ججوں نے آئین پاکستان کی شق نمبر ٦٢۔ ٦٣ پرپورا نہ اُترنے پر سیاست سے تاحیات نا اہل کر دیا۔ لندن کے فلیٹز کی منی ٹرائیل نہ دینے اور جعلی ڈیڈ جمع کرانے پر نواز شریف کو کرپشن میں سزا سنائی۔ جیل سے بیماری کا بہانہ بنا کر علاج کی خاطر لندن چلے گئے۔
کرپشن میں سزا اور جیل جانے سے پہلے الیکشن کے دوران ملک کی محافظ مایا ناز فوج اوراعلی عدلیہ پر الزامات کی گردان دُھراتے رہے”مجھے کیوں نکالا”۔مگرعوام نے الیکشن میں عمران خان کو کامیاب کیا۔لندن جانے پر فوج کے سپہ سالار ، آئی ایس آئی اور سی پیک کے سربراہ پر نام لے کر الزام لگائے۔ ملک دشمن قوتوں سے لندن میں بیٹھ کر ملاقاتیں کیں۔ بھارت جو پاکستان کاازالی دشمن ہے،اس کی خفیہ کے سربراہ اجیت دول نے کہا تھا کہ بھارت نے نواز شریف پر انوسٹمنٹ کی ہوئی ہے اس کو اکیلا نہیں چھوڑیں گے۔اس سے قبل فوج کی خلاف ڈان لیکس ہوئی اور آئی ایس آئی کے سربراہ پر الزامات لگائے گئے۔ دونوں مسئلوں جب پوچھ گچھ ہوئی تو اپنے ساتھیوں کو سزا دی۔
ویسے بھی کسی بھی فوجی سپہ سالار سے نواز شریف کی نہیں بنی۔ تجزیہ کاروں کے مطابق نواز شریف فوج کو بھی گلو بٹ جیسی پولیس بنانے خواب دیکھتے تھے جو فوج کے لیے ایسا کرنا ممکن نہیں ۔ فضل الرحمان نے فوج کو دھمکی دی کہ جیسے افغانستان سے امریکی فوج کو نکالا، پاکستان سے تم کو بھی نکالے گے۔یہ غیر مناسب دھمکی ہے کیا پاکستانی فوج غیر ملکی فوج ہے جسے فضل ا لرحمان پاکستان سے نکالنا چاہتے ہیں۔جب ملک میں مہنگاہی کی وجہ سے خیبر پختون خواہ میں بلدیاتی انتخابات میں فضل الرحمان کی پارٹی کو فتح ملی تو کہا کہ اسکی وجہ فوج کانیوٹل ہونا ہے۔ کیا بات ہے جب ہار جائیں تو فوج نے ہرایا اور جب جیت جائیں تو فوج کے نیوٹل ہونے پر جیت ملی۔ نواز شریف لندن میں بیٹھ کر سیاست کر رہا ہے جی ڈی اے بنائی۔
فضل الرحمان کو صدر بنایا۔ زرداری جو بے نظیرکے دورحکومت میں مسٹر ٹین پرسنٹ مشہور ہوئے تھا۔ جن کے سوئٹزر لینڈ کے بنکوں میں پیسے پڑے ہوئے ہیں۔ عدالت کے حکم کے باوجود پیپلز پارٹی کے وزیر اعظم سید یوسف رضا گیلانی نے خط نہیں لکھا اور کنٹپٹ آف کورٹ کی وجہ سے نا اہل قرار پائے۔ عمران خان الزام لگا رہے کہ ان کی پارٹی کے ممبران کو کروڑوںکی آفر کی جارہی ہے کہ وہ میرا ساتھ چھوڑ کر عدم اعتماد میں اپوزیشن کا ساتھ دیں۔پارٹی سے غداری کرنے والوں کے خلاف قانونی چارہ جوئی کریں گے۔ طاقت کا مظاہرہ کرنے کے لیے دس لاکھ افراد اکٹھے کریں گے۔ میں تینوں کو پارلیمنٹ میں شکست دوں گا۔حکومت سے مزیدمراعات حاصل کرنے کے لیے ایم کیو ایم اور ق لیگ اپوزیشن سے ملاقاتیں کر رہیں ہیں۔پنجاب اسمبلی میں ق لیگ کے اسپیکر پرویز الہی پنجاب کے وزیر اعلیٰ بننے کا مطالبہ کہہ رہے ہیں۔تحریک انصاف کہتی ہے کہ تحریک انصاف میں ضم ہو جائو تو تمھیں پنجاب کا وزیر اعلیٰ بنا دیں گے۔ ایم کیو ایم ایک اور وزیر اور اپنے سیل شدہ دفاتر کھولنے پر دبائے ڈال رہی ہے۔عمران خان کے کراچی میں بہادر آباد کے دورے کے موقعہ پر ایم کیو ایم کا حیدر آباد کا فتر کھول دیا گیا۔
زرداری نے وزیر اعلیٰ سندھ کو ایم کیو ایم کے دفاتر فوری کھولنے کی ہدایت کر دی ہے۔ تحریک انصاف کے علیم خان نے لندن گئے مگر نواز شریف اور جہانگیرترین سے ملے بغیر واپس آگئے۔پہلے خبر چلی تھی کہ نواز شریف سے ملاقات کی۔ نواز شریف نے ن لیگ میں شمولیت کا کہا۔ جہانگیر خان بھی نواز شریف سے ملنے کی تیاری کر رہے ہیں۔سراج الحق امیر جماعت اسلامی نے اپنی مجلس عاملہ سے خطاب کرتے ہو ئے صاف صاف اعلان کر دیا کہ جماعت اسلامی حکومت یا اپوزیشن کسی کے ساتھ نہیں۔ ہم عوامی حقوق کی جد و جہد جاری رکھیں گے۔ہم حق پر ڈٹے ہوئے ہیںسیاسی دنگل میں کوئی بھی اسلامی نظام کی بات نہیں کر رہا۔ وزیر اعظم پھر کنٹینر پر سوار ہو گئے ہیں۔عوام ملک کو اسلامی فلاحی مملکت بنانے کے لیے جماعت اسلامی کا ساتھ دیں۔حقیقت یہ ہے کہ پاکستان میں اس وقت صرف جماعت اسلامی صحیح اپوزیشن ہے باقی اپنے اپنے مفادات کی جنگ لڑ رہے ہیں۔
صاحبو! ذرائع کہتے ہیں کہ کیا واقعی ہی فوج عمران خان سے نالاں ہے۔جب پیپلز پاٹی اور نواز لیگ پانچ سال پورے کر سکتے ہیں تو تحریک انصاف کو بھی پانچ سال پورے کرنے چاہییں۔ جبکہ تحریک انصاف کے دور میں پہلی بار حکومت اور فوج ایک پیج پر آئے ہیں۔اب تو فوج بھی امریکا سے جان چھڑانے کی پالیسی پر کار بند ہے۔یہی بات تو جماعت اسلامی کہتی رہی ہے۔ اس نے تو پاکستان میں گو امریکا گو مہم بھی چلائی تھی۔ جبکہ نواز شریف، زداری اور فضل الرحمان پاکستان میں اقتدار پر آنے کے لیے امریکہ کی طرف دیکھتے ہیں۔ فضل الرحمان کے لیے تو وکی لیک نے کہا تھا کہ مجھے پاکستان کا وزیر اعظم بنائو۔ کیا پیپلز پارٹی نواز لیگ اور جمعیت علمائے اسلام یا کوئی بھی فوج پر دبائو ڈال کر اپنی ناجائز بات منوا سکتاہے۔یہ ریت پاکستان کے لیے نقصاب دہ ہے اوریہ ریت نہیں چلنی چاہیے۔خیر اس بات کا فیصلہ تو عدم اعتماد کے نتیجہ آنے پر ہو گا۔ کچھ بھی ہو اللہ پاکستان کے لیے بہتر کرے آمین۔