اسلام آباد (اصل میڈیا ڈیسک) وفاقی وزیر مونس الہی کو کون سلاخوں کے پیچھے دیکھنا چاہتا ہے؟ حکومت میں سے کوئی طاقت ق لیگ پر د بائو ڈالنے کیلئے کوشش کر رہی ہے یا پھر کوئی اور وجہ ہے جس کی وجہ سے ملک میں انسداد بدعنوانی کیلئے سرگرم سرکردہ ادارے سے مبینہ طور پر کہا گیا تھا کہ پرویز الٰہی کے بیٹے اور وفاقی وزیر مونس الٰہی کو گرفتار کیا جائے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ جس ادارے سے مونس الٰہی کو پکڑنے کیلئے کہا گیا تھا اسی نے گجرات کے چوہدریوں کو یہ معلومات دیدی۔ ایجنسی کو بتایا گیا کہ مونس کیخلاف کوئی زیر التوا کیس نہیں ہے لیکن اس کے باوجود انہیں گرفتار کرنے کیلئے ہدایت جاری کی گئی ہے۔
گجرات کے چوہدریوں کے قریبی ذرائع نے دی نیوز کو بتایا ہے کہ مونس کی گرفتاری کے متعلق ق لیگ کی قیادت کو چند روز قبل اس وقت پتہ چلا جب وفاقی وزیر پانی نے ایک خطاب کے دوران وزیراعظم عمران خان کو اپنی پارٹی کی حمایت کا یقین دلایا اور وزیراعظم عمران خان سے کہا کہ وہ اپنی پارٹی کے حامیوں سے کہیں کہ ’’گھبرانا نہیں۔‘‘ ان ذرائع کا کہنا ہے کہ بعد میں مونس الٰہی سے ایک اہم حکومتی عہدیدار نے سوال کیا کہ ’’آپ پی ٹی آئی میں شمولیت کیوں اختیار نہیں کرتے۔‘‘
ق لیگ حکومت کی اتحادی جماعت ہے لیکن ایسا لگتا ہے کہ یہ جماعت حکومتی اتحاد سے دور ہو رہی ہے اور فی الوقت اپوزیشن والوں کے ساتھ مفصل مباحثوں میں مصروف ہے تاکہ وزیراعظم عمران خان کیخلاف عدم اعتماد کی تحریک کا حصہ بن سکے۔ ق لیگ نے اب تک کوئی فیصلہ نہیں کیا لیکن لگتا ہے کہ وہ اپوزیشن کی طرف مائل ہے۔
تحریک عدم اعتماد کے معاملے میں ق لیگ کا ساتھ اہمیت کا حامل ہے لیکن اس کی وجہ قومی اسمبلی میں اس کے ارکان کی تعداد نہیں بلکہ پارٹی کے اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ گہرے تعلقات ہیں۔ تاہم، یہ بڑی ہی عجیب بات ہے کہ اپوزیشن والوں کی عدم اعتماد کی تحریک ناکام بنانے کیلئے جس وقت پی ٹی آئی کی حکومت کو اپنے اتحادیوں کی اشد ضرورت ہے اس وقت حکومت کے اندر موجود کچھ افراد نے کھل کر ق لیگ کو تنقید کا نشانہ بنانا شروع کر دیا ہے۔
پہلے تو یہ کام وزیر داخلہ شیخ رشید نے کیا اور ق لیگ کیلئے کہا کہ پانچ سیٹوں والی پارٹی پنجاب میں وزارت اعلیٰ کا عہدہ حاصل کرنے کیلئے حکومت کو بلیک میل کر رہی ہے۔ جس کے بعد مونس الٰہی نے ٹوئٹر پر بیان دیتے ہوئے شیخ رشید پر شدید جوابی وار کیا۔ بعد میں شیخ ر شید نے کہا کہ انہوں نے تو ایسے ہی ایک سوال کا جواب دیا تھا کہ چار اور پانچ پارٹیوں والی جماعتیں حکومت کو بلیک میل کر رہی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ان کے بیان کو سیاق و سباق سے ہٹ کر پیش کیا گیا۔
شیخ رشید نے کہا کہ انہوں نے کئی مرتبہ کہا ہے کہ وہ چوہدری ظہور الٰہی کے احسان مند ہیں۔ انہوں نے چوہدری شجاعت کی صحتیابی کیلئے بھی دعا کی اور کہا کہ میں ان کیخلاف کبھی بات نہیں کر سکتا۔ انہوں نے مزید کہا کہ ان کا بیان عام سا بیان تھا اور اس میں کسی کو نشانہ نہیں بنایا گیا تھا۔
وزیر پانی مونس الٰہی نے شیخ رشید کو جواب دیتے ہوئے کہا کہ وہ شیخ رشید کے مشکور ہیں کہ انہوں نے غلط فہمی دور کی، ’’میں آپ کی اسی انداز سے عزت کرتا ہوں جس طرح آپ ہمارے بزرگوں کی عزت کرتے ہیں۔‘‘ لیکن اگلے ہی دن، اسد عمر نے ق لیگ کے بارے میں بیان دیا اور کہا کہ ق لیگ پنجاب میں صرف چند حلقوں کی جماعت ہے۔
ق لیگ کو اب فیصلہ کرنا ہے کہ وہ تحریک عدم اعتماد میں اپوزیشن کا ساتھ دے گی یا حکومت کا، اب یہ جماعت 23؍ مارچ کے بعد ہی اپنے فیصلے کا اعلان کرے گی تاکہ قومی مفاد میں اسلامی کانفرنس تنظیم کا اجلاس پرسکون انداز سے مکمل ہو جائے۔ حکومت کے دیگر اتحادیوں سے بھی توقع ہے کہ وہ اسلام آباد میں او آئی سی کانفرنس کی تکمیل کے بعد کوئی فیصلہ کر لیں گے۔