برطانیہ (اصل میڈیا ڈیسک)برطانیہ کے وزیراعظم بورس جانسن رواں ہفتے متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب کا سرکاری دورہ کرنے والے ہیں۔اس معاملے سے آگاہ ذرائع نے بتایا ہے کہ وہ اماراتی اور سعودی قیادت سے تیل کی پیداوار بڑھانے اور تیل کی برآمدات کے لیے بات چیت کریں گے جبکہ تیل برآمدکرنے والے ممالک کی تنظیم اوپیک پرتیل کی پیداوار بڑھانے کے لیےدباؤ بڑھ رہا ہے۔
وہ یہ دورہ ایسے وقت میں کررہے ہیں جب یوکرین پر روس کے حملے سے توانائی کی عالمی مارکیٹ میں قیمتوں میں اضافہ ہوا ہے اور خام تیل کی قیمتیں 100 ڈالرفی بیرل کے قریب پہنچ گئی ہیں۔
ذرائع کے مطابق بورس جانسن بدھ کوابوظبی میں متحدہ عرب امارات کے حقیقی حکمران شیخ محمد بن زاید اوردیگرحکام سے ملاقات کرنے والے ہیں۔وہ اسی روز الریاض روانہ ہوجائیں گے جہاں وہ سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان سے ملاقات کریں گے۔
اس سے قبل برطانیہ کے ذرائع ابلاغ نے وزیراعظم کے سعودی عرب کے ممکنہ دورے کی اطلاع دی تھی۔البتہ ڈاؤننگ اسٹریٹ نے اس معاملے پر کوئی تبصرہ کرنے سے انکار کیا ہے اور بعض ذرائع کا کہنا ہے کہ جانسن کا دورے کا منصوبہ اب بھی تبدیل ہوسکتا ہے۔ واشنگٹن کے خلاف مزاحمت
سعودی عرب اورمتحدہ عرب امارات روزانہ ایک کروڑ تیس لاکھ بیرل سے زیادہ تیل نکالتے ہیں اوروہ ان چند پیداکنندگان میں شامل ہیں جن کی پیداواری گنجائش اس سے زیادہ ہے۔ وہ پیٹرولیم برآمد کنندگان کی تنظیم کے اہم رکن ہیں۔اس کارٹل کاروس کے ساتھ اتحاد ہےاور اسے ’اوپیک پلس‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔
سعودی عرب اوریواے ای اب تک امریکا،جاپان اور یورپی ممالک کی جانب سے تیل کی پیداوار میں اضافے میں تیزی لانے کے مطالبات کی مزاحمت کرتے رہے ہیں۔
گذشتہ ہفتے واشنگٹن میں متحدہ عرب امارات کے سفیر نے کہا تھا کہ ابوظبی اوپیک پلس میں شامل دیگراراکین سے مطالبہ کرے گا کہ وہ پیداوارمیں اضافہ کریں۔امریکی وزیرخارجہ انٹونی بلینکن نے اس پیش رفت کا خیرمقدم کیا ہے۔اگرچہ یواے ای کے وزیر تیل نے بعد میں وضاحت کی اور اس بات کا اعادہ کیا کہ ان کا ملک اوپیک پلس کے سمجھوتے کی پاسداری کے لیے پرعزم ہے۔
اس گروپ کا آیندہ اجلاس31 مارچ کوہوگا۔اس سے قبل گذشتہ اجلاس میں اس نے ہر ماہ عالمی منڈیوں میں 4 لاکھ بیرل یومیہ اضافی تیل مہیاکرنے کا وعدہ کیا ہے جبکہ تاجروں کا کہنا ہے کہ رسد اور طلب میں توازن قائم کرنے کے لیے یہ مقدارکافی نہیں ہے۔ روس سے تعلقات
سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات اگراپنے مقررہ کوٹے سے زیادہ تیل نکالتے ہیں تو وہ اوپیک پلس کی شراکت داری توڑنے اور روس کے ساتھ اپنے تعلقات کو نقصان پہنچانے کا خطرہ مول لیں گے۔
اس کے باوجود بورس جانسن پر سعودی ولی عہد سے مزید تیل مانگنے کے لیے دباؤ ڈالا جارہا ہے۔انھوں نے امریکی صدر جو بائیڈن کے مقابلے میں شہزادہ محمد بن سلمان کے ساتھ بہتر تعلقات برقرار رکھے ہیں۔
صدربائیڈن نے سعودی ولی عہد کو بائی پاس کرنے کا انتخاب کیا ہے حالانکہ وہ مملکت میں روزمرہ کے امورحکومت چلاتے ہیں۔یہ ایک ایسی پالیسی ہے جسے الریاض میں معمولی سمجھا جاتا ہے اور اس کی وجہ سے امریکا روس کو تنہا کرنے کی کوششوں میں خلیجی عرب ممالک کی حمایت حاصل کرنے میں ناکام رہاہے۔
برطانوی وزیرصحت ساجد جاوید نے پیرکے روز ٹائمزریڈیو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا تھاکہ یورپ میں یوکرین جنگ کی وجہ سے توانائی کے درپیش ایک عالمی بحران کے وقت وزیراعظم جانسن اوردیگرعالمی رہنماؤں کا سعودی عرب کے ساتھ بات چیت کرنا ایک درست اقدام ہے۔