کرناٹک (اصل میڈیا ڈیسک) بھارتی ریاست کرناٹک میں مسلم تنظیموں نے حجاب سے متعلق عدالتی فیصلے کے خلاف جو ہڑتال کی، اس کا مسلم اکثریتی علاقوں میں نمایاں اثر پڑا۔ پاکستانی وزیر اعظم عمران خان نے بھی بھارتی عدالت کے فیصلے کو اسلاموفوبیا قرار دیا ہے۔
بھارت کی جنوبی ریاست کرناٹک کی مسلم تنظیموں نے ریاستی تعلیمی اداروں میں حجاب پہننے پر پابندی کے عدالتی فیصلے کے خلاف احتجاج کے لیے 17 مارچ جمعرات کو پوری ریاست میں ہڑتال کی جو اپیل کی، جس کا بیشتر مسلم اکثریتی علاقوں میں کافی اثر پڑا۔
ایک مقامی صحافی نے ڈی ڈبلیو اردو کو بتایا کہ دارالحکومت بنگلور سمیت کئی شہروں کے مسلم اکثریتی علاقوں میں ’’دکانیں اور تجارتی مراکز پوری طرح بند‘‘ رہے۔
اس صحافی کا کہنا تھا کہ اس ہڑتال کی کال ریاست کے تقریباﹰ سبھی مسلم دانشوروں اور مسلم تنظیموں نے مل کر دی تھی، ’’اس لیے اس اپیل کو بڑی سنجیدگی سے لیا گيا اور یہی وجہ ہے کہ جمعرات کے روز سبھی مسلم علاقوں میں ہر طرح کی کاروباری سرگرمیاں بند ہو کر رہ گئیں۔‘‘
دینی تنظیموں اور علماء پر مشتمل کرناٹک کے ایک معروف ادارے، امیرِ شریعت کے امیر مولانا صغیر احمد خان راشدی نے اس پرامن پڑتال کی اپیل کی تھی اور جماعت اسلامی نے بھی اس کی حمایت کی تھی۔ آخری اطلاعات تک یہ ہڑتال پرامن طریقے سے جاری تھی۔
تاجروں کی ایک معروف تنظیم کے نائب صدر علی جان کا کہنا تھا کہ حجاب سے متعلق ’’عدالتی فیصلہ شریعت کے عین خلاف ہے۔‘‘
اسی ہفتے منگل کے روز کرناٹک ہائی کورٹ نے اپنے ایک فیصلے میں کہا تھا کہ چونکہ حجاب پہننا اسلام کا لازمی حصہ نہیں، اس لیے اس پر پابندی درست ہے۔ تاہم مسلمانوں نے اس فیصلے کو مایوس کن اور حیران کن قرار دیتے ہوئے اسے ملکی سپریم کورٹ میں چیلنج کر دیا ہے۔ بھارتی سپریم کورٹ نے فوری سماعت کرنے کے بجائے اس پر ہولی کے ہندو مذہبی تہوار کی چھٹیوں کے بعد سماعت کی بات کی ہے۔
اپنا فیصلہ سناتے ہوئے ریاستی ہائی کورٹ کے چیف جسٹس ریتو راج اوستھی نے کہا تھا، ”ہمارا خیال ہے کہ اسلامی عقیدے میں مسلم خواتین کے لیے حجاب پہننا کوئی لازمی مذہبی عمل نہیں۔” اسی بینچ میں شامل ایک اور جج کا کہنا تھا، ”ہماری رائے یہ ہے کہ اسکول کی جانب سے یونیفارم متعین کرنا ایک معقول پابندی ہے جو آئینی طور پر جائز ہے اور اس پر طلبہ کو اعتراض کرنے کا حق نہیں ہے۔‘‘
بھارتی عدالت نے حجاب سے متعلق جو باتیں کہی ہیں، ان پر بھارت کے علاوہ دنیا کے دیگر ممالک میں بھی تنقید کرتے ہوئے مایوسی کا اظہار کیا گیا ہے۔ مقامی مسلم تنظیموں کا کہنا ہے کہ کیا اب شریعت کی تشریح کا اختیار بھارتی عدالتوں کے پاس ہی رہ گيا ہے اور کیا وہی اب یہ فیصلے کریں گی کہ کیا کچھ شرعی ہے اور کیا غیر شرعی؟
پاکستانی وزیر اعظم عمران خان نے بھی بدھ کے روز صوبے خیبر پختونخوا میں ایک ریلی سے خطاب کے دوران کرناٹک ہائی کورٹ کے اس فیصلے پر تنقید کی۔ عمران خان نے کہا، ’’آخر اسلاموفوبیا ہے کیا؟ کرناٹک ہائی کورٹ کی طرف سے حجاب پر پابندی کے حکم کو اسلاموفوبیا ہی کہا جا سکتا ہے۔ اس کا مطلب تو یہی ہوا کہ خواتین اپنے کپڑے اتار سکتی ہیں مگر حجاب نہیں کر سکتیں۔‘‘
جمعرات کے روز ہی امریکہ میں خارجہ امور کی کمیٹی کے چیئرپرسن گریگوری میکس نے بھی کرناٹک ہائی کورٹ کے فیصلے پر مایوسی کا اظہار کیا۔ انہوں نے کہا کہ یہ فیصلہ اظہار رائے کی آزادی کو محدود کر دے گا اور لڑکیوں کے اپنے مذہب اور تعلیم کے حقوق میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنے پر مجبور ہو جانے کی وجہ سے ان کے لیے رکاوٹ کا باعث بن سکتا ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا، ’’چاہے امریکہ ہو یا بھارت، یا کوئی بھی اور ملک، اقلیتی برادریوں سے جو سلوک کیا جاتا ہے، وہی معاشرے کا اصل پیمانہ ہوتا ہے۔‘‘
ریاست کرناٹک کے ضلع اڈوپی میں حجاب کا تنازعہ گزشتہ برس دسمبر میں اس وقت شروع ہوا تھا، جب ایک اسکول نے گیارہویں اور بارہویں جماعتوں کی بعض طالبات کو اسکارف پہننے کے سبب کلاس روم میں داخل ہونے سے منع کر دیا تھا۔ پہلے طالبات نے اس کے خلاف احتجاج کیا لیکن پھر جب انتظامیہ نے بھی اسکول کی حمایت کر دی، تو اس معاملے کو عدالت میں چیلنج کر دیا گيا تھا۔
بھارت میں بعض قانونی ماہرین کا کہنا ہے، ”ہائی کورٹ کا یہ فیصلہ، آئین میں جن بنیادی حقوق کی ضمانت دی گئی ہے، ان کی روح کے منافی ہے۔‘‘
سپریم کورٹ کے ایک سرکردہ وکیل آر ایم شمشاد نے کہا، ”عدالت کی یہ تشریح کہ اسلامی عقیدے میں جو فرائض ہیں صرف انہی کو تحفظ ملے گا، درست نہیں۔ اس مسئلے کو انسان کی بنیادی آزادی کی عینک سے دیکھنا درست نہیں۔‘‘