واشنگٹن (اصل میڈیا ڈیسک) ایک امریکی عہدیدار نے بتایا ہے کہ امریکہ نے میانمار میں فوج کی جانب سے روہنگیا اقلیت کے خلاف تشدد کو نسل کشی اور انسانیت کے خلاف جرائم کے مترادف قرار دینے کا فیصلہ کیا ہے۔
سال2017 سے اب تک بدھ مت کے پیروکاروں کی اکثریت والے ملک میانمار سے لاکھوں روہنگیا مسلمان فوجی کریک ڈاؤن کے بعد فرار ہو چکے ہیں اور یہ معاملہ دی ہیگ میں عالمی عدالت انصاف میں نسل کشی کے مقدمے کے طور پر زیر سماعت ہے۔
فرانسیسی خبررساں ایجنسی اے ایف پی کے مطابق امریکی وزیر خارجہ اینٹنی بلنکن پیر کو واشنگٹن کے ہولوکاسٹ میوزیم کے دورے کے دوران اپنے خطاب میں باضابطہ طور پر اس کا اعلان کریں گے، جہاں ملک کے سابقہ نام کا استعمال کرتے ہوئے ’برما کا نسل کشی کا راستہ‘ کے عنوان سے ایک نمائش جاری ہے۔
اینٹنی بلنکن نے گذشتہ سال دسمبر میں ملائیشیا کے دورے کے دوران کہا تھا کہ امریکہ اس بات پر ’بہت تیزی سے‘ غور کر رہا ہے کہ آیا روہنگیا کے ساتھ سلوک ’نسل کشی‘ ہو سکتا ہے۔
تقریبا ساڑھے آٹھ لاکھ روہنگیا افراد ہمسایہ ملک بنگلہ دیش کے کیمپوں میں مقیم ہیں جبکہ اس برادری کے مزید چھ لاکھ افراد میانمار کی جنوب مغربی ریاست راخائن میں موجود ہیں۔
2019 میں عالمی عدالت انصاف میں میانمار کے خلاف شروع ہونے والا یہ مقدمہ گذشتہ سال فوجی بغاوت کی وجہ سے پیچیدہ ہو گیا ہے جس میں آنگ سان سوچی اور ان کی سویلین حکومت کو معزول کر دیا گیا تھا، جس کے بعد ملک میں بڑے پیمانے پر مظاہرے اور خونریز کریک ڈاؤن شروع ہو گیا تھا۔
نوبیل امن انعام یافتہ آنگ سان سوچی، جنہیں روہنگیا کیس میں ملوث ہونے کی وجہ سے انسانی حقوق کے گروپوں کی تنقید کا سامنا کرنا پڑا تھا، اب نظر بند ہیں اور وہی جرنیل ان کے خلاف مقدمہ چلا رہے ہیں، جن کا انہوں نے دی ہیگ کی عدالت میں دفاع کیا تھا۔
امریکی خبرساں ادارے اے پی کے مطابق امریکی کانگریس کے رکن اور امریکی ریاست اوریگون سے ڈیموکریٹک رکن سین جیف مرکلی نے اس متوقع اقدام کا خیر مقدم کیا ہے۔
انہوں نے کہا: ’میں جو بائیڈن انتظامیہ کی تعریف کرتا ہوں جنہوں نے روہنگیا کے خلاف ہونے والے مظالم کو بالآخر نسل کشی کے طور پر تسلیم کیا۔‘
اے پی کے مطابق انسانی گروپ ریفیوجیز انٹرنیشنل نے بھی امریکہ کے اس اقدام کی تعریف کی ہے۔
گروپ نے ایک بیان میں کہا کہ ’امریکہ کی جانب سے میانمار میں نسل کشی کا اعلان ایک خوش آئند اور بہت معنی خیز قدم ہے۔ یہ ان تمام لوگوں کے لیے انصاف کے عزم کی ایک علامت بھی ہے، جو آج بھی فوجی جنتا کی جانب سے زیادتیوں کا سامنا کر رہے ہیں۔‘