مولانا غلام مصطفی قاسمی ممتاز اسکالر اور عالم دین تھے۔ لاڑکانہ کے ایک گاؤں میں پیدا ہوئے۔ انہیں عربی، فارسی، اردو اور سندھی پر عبور حاصل تھا، فلسفے میں وہ مولانا عبیداللہ سندھی کے پیروکار تھے
مولانا غلام مصطفی قاسمی ممتاز اسکالر اور عالم دین۔ لاڑکانہ کے ایک گاؤں میں پیدا ہوئے اور سندھ کے مختلف مدارس میں ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد وہ دیوبند کے مشہور مدرسے سے فارغ التحصیل ہوئے۔ ان کا تعلق چانڈیو قبیلے سے تھا لیکن انہوں نے اپنی شناخت دیوبند کے مدرسے کے بانی عالم علامہ محمد قاسم نانوتوی کے حوالے سے کروائی اور اپنے نام کے ساتھ چانڈیو کے بجائے قاسمی لگایا۔
انہیں عربی، فارسی، اردو اور سندھی پر عبور حاصل تھا اور انہوں نیان زبانوں میں چالیس سیزائد کتابیں لکھیں۔ انہوں نے سندھ کے دینی پس منظر پر بڑی تحقیق کی اور سندھ کے پرانے مذہبی علما خاص طور پر مخدوم محمد ہاشم ٹھٹوی، مخدوم محمد ابراھیم ٹھٹوی، مخدوم محمد جعفر بوبکائی اور قاضی محمد اکرم کی تحریروں کو سندھی سے اردو میں ترجمہ کیا اور ان کی اشاعت کا بندوبست کیا۔
فلسفے میں وہ مولانا عبیداللہ سندھی کے پیروکار تھے اور مولانا سندھی اور شاہ ولی اللہ کی تعلیمات کو پھیلانے کے لئے کوشاں رہے۔ اس مقصد کے لئے انہوں نے شاہ ولی اللہ اکیڈمی قائم کی جس کے زیر اہتمام کئی مذہبی کتابیں شایع کی گئیں۔ اس کے علاوہ انہوں نے قرآن شریف کی تفسیر سندھی میں لکھی۔
علامہ قاسمی کی مذہبی خدمات کے علاوہ ادبی خدمات بھی قابل ستائش ہیں۔ انہوں نے شاھ عبدالطیف بھٹائی کے کلام کی شرح بھی کتابی شکل میں لکھی۔ وہ بارہ برس تک سندھی ادبی بورڈ کے چیئرمن اور ضیا دور میں مرکزی رویت ہلال کمیٹی کے سربراہ رہے۔ ایک عرصے تک وہ سندھ یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کرنے والے اسکالرز کے گائیڈ بھی رہے اور ان کی زیر نگرانی سندھ کی کئی نامور شخصیات نے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔